تاریخی واقعات صرف دل بہلانے یا صرف مطالعے کے لئے نہیں ہوتے۔ جو لوگ انہیں وقت گزاری کے لئے یا ذہنی تسکین کے لئے پڑھتے ہیں وہ بے شک اپنے آپ کو تو مطمئن کر لیتے ہیں مگر ان سے سبق حاصل نہیں کر پاتے۔ جو لوگ انہیں پڑھ کر اس سے سبق حاصل کرتے ہیں وہ لوگ ان واقعات سے حاصل سبق سے زندگی کا حالات کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو برسوں بیت گئے تاریخ سے سبق حاصل کرنا تو کجا تاریخ کے مطالعے کا بھی شوق نہیں رہا۔ بیش قیمت کتابیں ان کی الماریوں میں مطالعہ گاہوں میں صرف شو پیش کے طور پر سجانے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ جس سے ان سے ملنے کے لئے آنے والوں پر رعب پڑتا ہے کہ جناب کتنے وسیع المطالعہ ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ سب صرف کتابیں جمع کر کے دوسروں پر رعب ڈالنے کا حربہ ہوتا ہے۔شاید ہی کوئی انہیں ہاتھ لگاتا ہو۔ صرف جھاڑ پونج کر انہیں واپس رکھا جاتا ہے ا گر ہمارے سیاستدان اور حکمران تاریخ کا مطالعہ اپنی زندگی کا حصہ بناتے تو آج جوکچھ ملک میں ہو رہا ہے کم از کم یہ کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔ بھٹو مرحوم کے بعد شاید ہی کوئی ایسا حکمران یا سیاستدان ہمیں ملا ہو کا ذوق مطالعہ بھی وسیع تھا اور ان کو تاریخی واقعات پر گرفت بھی تھی مگر افسوس انہوں نے بھی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی بجائے تاریخ میں امر ہونے کو ترجیح دی اور وہ اس میں اسی طرح کامیاب بھی رہے جس طرح قدیم ہندوستان کی رزمیہ داستان مہا بھارت میں ایک بڑاجنگجو ”کرن“ غلطیوں کے باوجود تاریخ میں اپنا نام اپنے مدمقابل دوسرے بڑے حق پرست جنگجو ”ارجن“ کے مقابلے میں لکھوانے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ اس وقت ملکی سیاست بھی اسی سیاست کا شکار ”مہا بھارت“ کا منظر پیش کر رہی ہے جس میں دو متحارب گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کی کیفیت منڈلاتی نظر آرہی ہے۔ جس پر(معذرت کے ساتھ) مہا بھارت کے ہیرو ”ارجن“ نے کہا تھا کہ ”طاقت کے زور پر تخت کیلئے لڑنا ایسا ہی ہے جیسے دو کتے کسی چیز کے لئے لڑتے ہیں“۔ بہرحال اس وقت کی سیاسی صورتحال پر اگر ہمارے سیاستدان اور حکمران صبر و تحمل سے کام لیں تو کم از کم اور کچھ نہیں تو ملک کے اندر پھیلی سیاسی بے چینی میں کمی آسکتی ہے۔ ورنہ بہت سے نادان حکومتی مشیر اور حزب اختلاف کے سیاستدان اس کوشش میں ہیں کہ حکمران اور حزب اختلاف خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں کود پڑیں اور اس کے نتیجے میں کوئی غیر سیاسی مداخلت ہو تاکہ ان مشیروں اور سیاستدانوں کی دلی تمنا پوری ہو اور وہ حسب سابق اپنا اپنا کاسہ گدائی اٹھائے نئے بادشاہوں کے دربار میں اپنا حصہ مانگنے کے لئے نکل پڑیں۔ حکمران بھی کرنے کے بہت سے کام چھوڑ کر ایسے کاموں میں الجھ رہے ہیں جن کو ان کے متعلق اداروں پر چھوڑنا ہی فائدہ مند ہے تاکہ کسی جانب سے بھی حکومت پر جانبداری کا الزام نہ آئے۔ اس وقت عالمی سطح پر تیز رفتار تبدیلیاں ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔ سعودی عرب اور ایرانی چپقلش یمن سے لے کر آزاد ایران بلوچستان تک پھیل رہی ہے۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ سی پیک کے خلاف ہی نہیں پاکستانی ریاست میں بلوچستان کے مٹھی بھر باغی عناصر کو بھی چھتر چھایا فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں اندرونی خلفشار پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت مسئلہ کشمیر دنیا میں توجہ حاصل کر رہا ہے۔ اس لئے ہمیں یکسو ہو کر اس کو سرفہرست رکھنا ہو گا تاکہ ہماری غفلت سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر ان کی بھرپور اخلاقی و سفارتی امداد جاری رکھنا ہو گی۔ جس طرح بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں مدد کی تھی ۔ ویسے امین گنڈا پور کو وزارت امور کشمیر دے کر حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کشمیر سے کتنی مخلص ہے۔ کیونکہ یہ صاحب بھی شاید پہلے وزرائے کی طرح ہی کشمیر کے حدود اربعہ سے واقف ہوں....۔
اس وقت پنجاب میں حکومت نے صاف پینے کے پانی کے سابقہ منصوبوں کی چھان بین کے ساتھ نئے ”بلیو آب“ کی فراہمی کا منصوبہ ہے۔ اس کام میں بہت سے نجی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں کام حافظ رمضان چشتی کا ہے جو تن تنہا بنا کسی سرکاری امداد کے لاہور میں دو،تین بڑے صاف پینے کے پانی کے منصوبے چلا کر ہزاروں گھروں میں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے ہوئے ہیں حکومت پنجاب ان کی خدمات سے بھی استفادہ کر سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں حافظ رمضان چشتی عرصہ دراز سے اس نیک کام کے ساتھ ساتھ دھاتی ڈور کے خونی کھیل یعنی پتنگ بازی کے خلاف بھی میدان عمل میں ہیں۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے حکومت اس کھیل پر اس سے منسلک ”بسنت“ کے تہوار پر پابندی لگا چکی ہے۔ دھاتی ڈور سے پتنگ بازی کی وجہ سے جس طرح متعدد گھرانوں کے چشم و چراغ گلا کٹنے سے داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ اگر حافظ محمد رمضان چشتی و دیگر افراد اور تنظیمیں ون ویلنگ کے خلاف بھی ایک ایسا ہی محاذ کھول لیں تو آئے روز سڑکوں پر ون ویلنگ کے ہاتھوں بہنے والا خون رک سکتا ہے۔ جانوں کا اتلاف رک سکتا ہے۔جس میں ہر ماہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
تاریخ، حکمران اور ہمارے مسائل
Nov 01, 2018