پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے سابق کپتان وسیم اکرم کو کرکٹ کمیٹی میں شامل کر کے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماضی میں بھی وسیم اکرم کو جب بھی کوئی اہم ذمہ داری دینے کی بات ہوتی تھی نوے کی دہائی میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات ان کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے تھے لیکن احسان مانی نے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے وسیم اکرم کو ناصرف اہم ترین کمیٹی میں شامل کیا ہے بلکہ انہیں کلین چٹ بھی دے دی ہے. وسیم اکرم کا شمار ان کرکٹرز میں ہوتا ہے جنہیں کھیل کو داغدار کرنے کے حوالے سے ہمیشہ سخت الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے کرکٹرز نے ہی ان پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے نوے کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں دنیا کے بہترین کھلاڑی شامل تھے لیکن اس دور میں قومی ٹیم کے کرکٹرز کی مشکوک اور کھیل کی روح کے خلاف سرگرمیوں نے شرفاء کے کھیل کو بہت برے طریقے سے بدنام کیا اور بڑے کرکٹرز نے ایسے غلط کاموں کی داغ بیل ڈالی کہ اس کے بد اثرات آج بھی ہماری کرکٹ پر نظر آتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم دو انتہاوں پر ہیں ایک طرف اتنے باصلاحیت، تاریخ ساز اور عظیم کرکٹرز ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ یہ کھیلتے رہیں اور شائقین دیکھتے رہیں۔ ہر کوئی خواہش کرتا ہے کہ دوبارہ ایسے کرکٹرز قومی ٹیم کا حصہ ہوں دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہی کھلاڑیوں پر جان بوجھ کر خراب کارکردگی اور میچ ہارنے کے الزامات کسی اور نہیں ساتھی کھلاڑیوں کی طرف سے ہی عائد کیے گئے اپنی ہی ٹیم کے مختلف کوچز نے بھی پلئیرز پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا اور اپنے بیانات میں واضح طور پر میچ فکسنگ کے الفاظ استعمال کیے۔ کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین کو شکایت ہے کہ صحافیوں نے جسٹس ملک قیوم کمشن رپورٹ نہیں پڑھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خود بھی رپورٹ کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ساتھ کھڑے ہارون رشید کا وسیم اکرم کے بارے بیان ضرور ان کے ذہن میں ہوتا۔ اگر رپورٹ پڑھی ہوتی تو رمیض راجہ کے الفاظ انہیں یاد رہ جاتے۔ اگر احسان مانی نے جسٹس قیوم کمشن رپورٹ کا جائزہ لیا ہوتا تو عامر سہیل کا بیان انہیں حالات سمجھنے میں ضرور مدد دیتا۔ ایک فاسٹ باولر اور انیس سو بانوے عالمی کپ کی فاتح ٹیم کے رکن عاقب جاوید بھی ہیں جسٹس قیوم کمشن کے سامنے وہ بھی پیش ہوئے تھے اور کچھ نہیں تو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین انکا بیان ہی پڑھ لیتے جس میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کرکٹ کمیٹی میں شامل وسیم اکرم کے بارے کیا کہا ہے۔ چلیں اس وقت کے کھلاڑیوں کی بیانات کو نہ دیکھتے ذرا ماجد خان سے بات کر لیتے شاید ان کے علم میں کچھ اضافہ ہو جاتا۔ خالد محمود سے پوچھ لیتے کہ ان کے اور ماجد خان کے مابین اس معاملے پر اختلاف کیوں تھا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ ایک شخص کو ساتھ رکھنے کے لیے تاریخ کا رخ ہی موڑ دیں۔
تاریخ کا طالب علم یہ سوال ضرور کرے گا کہ کہ کیا ماجد خان نے غلط بیانی کی، کیا وہ ملک دشمن تھے جو اتنے بڑے کرکٹرز پر پابندی لگانے کے حق میں تھے، ماجد خان کیوں نوے کی دہائی کے کرکٹرز کے حوالے سے سخت فیصلے کرنا چاہتے تھے، کیا انکی یہ سوچ ملک دشمنی پر مبنی تھی، کیا عاقب جاوید، رمیض راجہ، راشد لطیف باسط علی، عامر سہیل اور عاقب جاوید نے میچ فکسنگ کے جھوٹے الزامات لگائے تھے اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں کو بورڈ نے آزاد کیوں چھوڑا۔ اتنے بڑے جھوٹ،غلط بیانی اور الزامات پر ان کرکٹرز کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی اگر وسیم اکرم کا موقف درست مانا جائے تو الزامات لگانے والوں اور انکے خلاف بیانات دینے والے جھوٹے ہیں اور اگر الزامات لگانے والے جھوٹے ہیں پھر وسیم اکرم کے ہاتھ کچھ نہیں رہتا۔ اگر وسیم اکرم اور دیگر مشکوک کرکٹرز سے بیرونی دنیا میں کام لیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے وہاں کچھ نہیں کیا تو پھر دانش کنیریا کو بھی ملک کی نمائندگی کا حق دیں کیونکہ انہوں نے فکسنگ پاکستان میں یا قومی ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے تو نہیں کی پھر ہم ان پر پابندی کیوں لگائے بیٹھے ہیں۔ جن کے ہاں مسئلہ ہوا تھا انہوں نے کارروائی کی تھی۔ نوے کی دہائی میں مسئلہ ہمارے ملک کا تھا ہم نے خود اسکو نہیں سلجھایا تو بھگت رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ حکمرانوں پر غداری کے مقدمات چلتے ہیں تو ملک بیچنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ کرکٹرز اتنے ہی اچھے ہیں تو پھر حنیف کیڈبری، حاجی فاروق، شہزادہ عالم،عارف چوٹانی، نیر، پپو، خالد گٹی، جوجو، سلیم پرویز اور کے ساتھیوں میں سے جو بھی حیات اور دستیاب ہیں ان کی بھی خدمات لے لی جائیں کیونکہ ان عظیم لوگوں نے جب پیسے کی کمی ہوتی تھی اس وقت قومی کرکٹرز کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا تھا تو آج یہ ملکی کرکٹ کی خدمت بھی اپنے ماضی کے دوستوں کے ساتھ ملکر اچھے انداز میں کر سکتے ہیں۔
احسان مانی پاکستان کرکٹ کے مالک ہیں وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن تاریخ کو بدلنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ایسا ممکن نہیں کہ وہ رات کو دن اور دن کو رات کہیں اور اسے تسلیم کر لیا جائے۔