اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات کو جاری کیے گئے نوٹس پر فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کر لی اور انہیں ایک نیا کریمنل توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے عدالت میں زیر التواء مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کیوں کی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو نیا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے اور انہیں پیر تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ نئے نوٹس پر سماعت منگل کے روز ہو گی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ منگل کے روز کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے اس لیے کیس کی سماعت دو روز بعد کر لیں تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت منگل کے روز ہی ہو گی۔ عدالت کا کہنا تھا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی سول کاروائی میں معافی قبول کرتے ہیں جبکہ کریمینل کاروائی چلے گی۔ آپ نے جو کہنا ہے تحریری طور پر عدالت میں کہیں ۔ عدالت نے فردوس عاشق اعوان کے خلاف کیس سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی۔جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت سے متعلق جاری کیے گئے نوٹس کے معاملے پر سماعت کی۔اس دوران وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان پیش ہوئیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد طارق جہانگیری بھی عدالتی معاونت کے لیے موجود تھے۔ عدالت نے وکلا تنظیموں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار کے صدر، ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداروں کو بھی معاونت کے لیے عدالت طلب کیا۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ اور فردوس عاشق اعوان میں مکالمہ ہوا اور چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، آپ ایک ایسے وزیر اعظم کی مشیر ہیں جو قانون کی بالادستی کے علمبردار تھے، ہمیں یقین ہے کہ وزیراعظم نے عدلیہ کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنے کی ہدایت نہیں کی ہوگی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، وہ وزیراعظم جو عدلیہ بحالی مہم میں پیش پیش تھے، آپ نے ایک زیر التوا معاملے پر بات کی اس لیے نوٹس جاری کیا۔ دو وجوہات کی بنیاد پر نوٹس جاری کیا گیا، ایک یہ کہ آپ نے عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، دوسرا آپ نے عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ میری ذات کے بارے میں جو کہیں مجھے کوئی پروا نہیں کیونکہ سچ سچ ہوتا ہے مگر عدلیہ کے خلاف کچھ نہیں سن سکتے، آپ سے ہرگز یہ امید نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم منتخب نمائندوں اور کابینہ کی بہت عزت کرتے ہیں، آپ کی گفتگو سے منصفانہ ٹرائل کا حق متاثر ہوتا ہے۔دوران سماعت عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو عدالتی قواعد و ضوابط پڑھنے کا کہا، جس پر انہوں نے اونچی آواز میں ان قواعد و ضوابط کو پڑھا کہ چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں سب سے سینئر جج فوری نوعیت کا کیس سن سکتے ہیں۔فردوس عاشق اعوان نے پڑھا کہ چھٹی کے روز بھی فریقین کی مشاورت سے کیس سنا جاسکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوتا آپ سیاست کو عدلیہ سے الگ رکھتیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو اگر وزارت قانون نے کچھ نہیں بتایا تھا تو کسی سینئر وکیل سے پوچھ لیتیں، آپ کے اپنے میڈیکل بورڈز کی رپورٹس موجود ہیں۔عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس عدالت کے ججوں پر فخر ہے، ایک سال کے دوران ہم نے سب سے زیادہ درخواستی نمٹائیں لیکن آپ توہین کر رہی تھیں کہ کاش غریب لوگوں کے لیے بھی ایسا ہو، ہم یہاں بیٹھے ہی عام لوگوں کے لیے ہیں، ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں جس کا نام لے کر حلف لیا ہے، ہم پریس کانفرنس نہیں کرسکتے اس لیے آپ کو بلایا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے خود عدالتی قواعد و ضوابط پڑھ لیے ہیں، ہم چھٹی کے دن بھی شہری کو سننے کے پابند ہیں، کیا آپ کبھی ضلعی عدالتوں میں گئی ہیں؟ اس سماعت کے بعد وہاں جا کر دیکھیں دکانوں میں عدالتیں لگی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی انتظامیہ کو ان عدالتوں کا خیال نہ آیا، اس کچہری میں عام لوگوں کے مسائل سنے جاتے ہیں، آپ بار کے صدر کے ساتھ جائیں اور آج صورتحال دیکھیں، اس کچہری میں ججز کے لیے ٹوائلٹ تک موجود نہیں ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں آپ کو کبھی شوکاز نوٹس جاری نہ کرتا لیکن آپ کو صرف دکھانے کے لیے بلایا کہ آپ نے کیا کیا ۔بات کو جاری رکھتے ہوئے عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے فیصلے بولتے ہیں وہی لوگوں کا اعتماد ہے، ہمارے فیصلوں سے آدھے لوگ خوش اور آدھے ناراض ہوتے ہیں۔عدالتی ریمارکس کے بعد فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگ لی اور کہا کہ میں آئندہ احتیاط کروں گی۔فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میں غیر مشروط معافی کی طلب گار ہوں، میں شکر گزار ہوں کہ تفصیلات بیان کیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے بیان نہیں کیں بلکہ آپ کو بتایا ہے، کبھی کہتے ہیں ڈیل ہو گئی، آپ تو حکومت ہیں آپ کو احتیاط کرنی چاہیے تھی۔اس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ میں عدلیہ کی توقیر میں کمی کا سوچ بھی نہیں سکتی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ میں بہتری آرہی ہے، آپ بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو عدالتی کارروائی پر متاثر ہوئیں۔بعد ازاں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔علاوہ ازیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جج پر ذاتی تنقید پر عدالتیں ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، عدالت کو متنازع کرنے کی حد تک آپ کی غیر مشروط معافی قبول کی جاتی ہے۔عدالت نے کہا کہ آپ کی معافی صرف اس عدالت کو سکینڈلائز کرنے کی حد تک قبول کی جاتی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کا پرانا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے تاہم آپ کو کریمنل توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی، جب منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بار کے صدر یہاں سے ڈسٹرکٹ عدالتوں میں لے کر جائیں گے، آپ عمران خان کی نمائندہ ہیں، آپ دیکھیں کہ انتظامیہ کی 30 سالہ غفلت کی وجہ سے کیا ہو رہا ہے۔اس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ایک گذارش ہے کہ 5نومبر کو کابینہ کا اجلاس ہے، میں نہیں آسکوں گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توہین عدالت ہے تاریخ آگے نہیں ہوگی، ایک کابینہ کا اجلاس ڈسٹرکٹ عدالت میں بھی ہونا چاہئے۔بعدازاں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو نئے توہین عدالت کے نوٹس پر 5 نومبر کو طلب کرلیا۔