سردار ایاز صادق سے قومی اسمبلی کی سیٹ واپس لیں!

سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں جو کہا ہے جو اس انداز میں کہا ہے اسے سننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے افواج پاکستان پر حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا ایاز صادق کے اس بیان کے بعد وہ بیانیہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں ہے کہ یہ سوچ اور بیانیہ امپورٹڈ ہے اس امپورٹڈ بیانیے کے پیچھے امریکہ بھارت اور اس فہرست میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اندرونی طور پر ایاز صادق کے اس بیان کا واحد مقصد افواجِ پاکستان اور عوام میں دوریاں پیدا کرنا ہے جب کہ بیرونی طور پر وہ اس بیان سے افواجِ پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ ان شاء اللہ اس مقصد میں وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کی اس ملک دشمن مہم کو ناکامی کا منہ ضرور دیکھنا پڑے گا۔ دہائیوں تک ملک لوٹنے والے ٹولے نے اپنی کرپشن بچانے کے لیے ریاستی اداروں کو ہدف بنا لیا ہے منتخب حکومت کا مقابلہ کرنے اور مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرنے کے بجائے ریاستی اداروں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ایاز صادق کا یہ بیان مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے اور منظم سازش کا حصہ ہے نہ تو یہاں زبان پھسلی ہے نہ یہ الفاظ جوش خطابت کے ہیں اور نہ ہی وہ کوئی اور بات کر رہے تھے انہوں نے یہ بیان بھرپور منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اس اجلاس سے پہلے مسلم لیگ کے بڑوں کی ایک میٹنگ ہوتی ہے اس میٹنگ کا ایجنڈ یہی تھا کہ اس بیان کے لیے کس شخص کا انتخاب کیا جائے۔ بیان کے الفاظ اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ غور و خوض کے بعد معتدل مزاج اور غیر متنازع ایاز صادق کا انتخاب ہوتا ہے کہ یہ بیان قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر دیں۔ لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف کو تفصیلات پہنچا دی جاتی ہیں پھر ایاز صادق قومی اسمبلی میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو ایک آزاد اور خود مختار سیاستدان کبھی قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ بات نہیں کر سکتا۔ ایاز صادق جوش خطابت میں نہیں بلکہ سیاسی غلامی میں اس حد تک آگے نکلے ہیں کہ انہوں نے سب کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں اپنے بیان پر کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے الفاظ پر قائم بھی ہیں۔ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کی یہ حالت ہے کہ قومی اسمبلی کے اس اجلاس کے بعد لندن سے میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی کے ذریعے ایاز صادق کے اس بیان کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ یہ حالات تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف اور ایک مرتبہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بننے والے سردار ایاز صادق کے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کی دہائیوں سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عوامی جذبات کو افواجِ پاکستان کے خلاف ابھارنے میں کامیاب ہوں۔ آج تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ان شائ￿ اللہ آئندہ بھی ایسا نہیں ہو گا لیکن ملک دشمنوں بالخصوص امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے اس دہائی میں انہوں نے تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے والے میاں نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سردار ایاز صادق کو بھی اسی مقصد کے تحت استعمال کیا گیا ہے۔
ایاز صادق کے اس بیان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے قومی اسمبلی کی سیٹ واپس لینی چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ ن ایاز صادق سے لاتعلقی کا اعلان کرے اگر میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اس بیان اور یہ زبان استعمال کرنے والے شخص سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کرتی تو پھر کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت میں اس بیانیے کی حمایت کرنے والے تمام افراد قومی سلامتی کے مخالف ہی نہیں بلکہ دشمنوں کے ہاتھوں میں بھی کھیل رہے ہیں۔ اگر یہ اپنے اسی بیانیے کے ساتھ  جڑے رہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ قومی سلامتی کے رازوں اور خفیہ معاملات کو سیاسی مقاصد پورا کرنے کے لیے بیان کرنے والوں کو اقتدار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے تمام افراد کو ملکی سیاست سے بھی الگ ہونا چاہیے، اقتدار کی راہداریوں میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ایاز صادق کو اس ملک نے قومی اسمبلی اسپیکر جیسے اہم عہدے تک پہنچایا اور اس ملک کے دفاعی اداروں کو بھارت جیسے دشمن کی موجودگی میں متنازع بنا کر وہ پاکستان کے عوام کو تو خوش نہیں کرنا چاہ رہے وہ یقیناً کسی اور کے ایجنڈے پر ہیں۔ 
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ جلسے میں میاں نواز شریف نے ریاستی اداروں پر تنقید کی پھر کراچی میں محمود خان اچکزئی نے قومی زبان کے حوالے سے متنازع بیان داغا پھر کوئٹہ میں اویس نورانی کے آزاد بلوچستان کا نعرہ اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں ایاز صادق کا نہایت غیر ذمہ دارانہ بیان نشاندہی کر رہا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اکٹھے ہو کر ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر بیرونی دشمنوں کو خوش اور سیاسی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن میں ایک کے بعد ایک متنازع بیان سامنے آ رہا ہے اور اتفاق سے سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے، سب کی لائن بھی ایک ہے۔ ٹائمنگ بھی ایسی ہے کہ بیرونی دنیا سے بھی مسائل کا سامنا ہے۔ اندرون ملک دہشت گردوں امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ڈیمو کریٹک کے اکابرین نے وہ بحث شروع کر دی ہے جس کے ہم عام حالات میں بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ بہرحال کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہیے کہ افواج پاکستان نے قسم کھا رہی ہے کہ اس ملک کے چپے چپے کی حفاظت کی جائے گی۔ اس ملک کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔  فوج کے افسران اور جوان روز جام شہادت نوش کر رہے ہیں ان ہی شہادتوں کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اپنے ہی سیاست دان اٹھیں اور جیسے چاہیں بیانات جاری کرتے پھریں۔ ہم سوتے ہیں تو وہ جاگ رہے ہوتے ہیں، ہم بیخوف زندگی بسر کرتے ہیں تو اس کے پیچھے شہدا کا خون ہے۔ اگر ہم نے اپنی شہادتوں کو ایسی گندگی سیاست میں الجھاتے پھریں۔ مسلم لیگ نے سیاست کرنی ہے تو پھر انہیں عوامی سیاست کرنا ہو گی ایسے بیانات سے گریز کرنا ہو گا اور جو بھی ریاستی اداروں پر حملہ آور ہو اسے کسی صورت معاف نہیں کرنا چاہیے۔ ہم سیاستدانوں کے منفی رویوں کا نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اگر ایاز صادق کے اس بیان پر شور اٹھا ہے اور لوگ انہیں نہایت نامناسب الفاظ میں یاد کر رہے ہیں تو پھر اسی پیمانے پر فواد چودھری کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ فواد چودھری نے جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ انہیں زیب نہیں دیتا اگر قومی سلامتی کو ایاز صادق کے بیان سے نقصان پہنچا ہے تو فواد چودھری کے بیان سے ہی اتنا ہی نقصان پہنچا ہے۔ دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ مقتدر اور فیصلہ ساز حلقوں کو بھی اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسے معاملات میں ایک کو مکمل آزادی اور دسروں سے قومی اسمبلی کی رکنیت واپس لینے کا مطالبہ بھی نامناسب ہے۔ اگر ایاز صادق کو سزا ملتی ہے تو فواد چودھری کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے۔ فیصلہ ساز قوتوں کو بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ کسی کا استحصال کرنے سے بہتر ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں نہ تو کسی کو غیر ضروری طور پر نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی کسی کو آزادی دی جانی چاہیے۔  
موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم ضرورت تعمیری گفتگو کے آغاز کی ہے۔ حکومت کو اس پہلو پر ضرور کام کرنا چاہیے۔ جب تک بات چیت کا آغاز نہیں ہو گا اس وقت تک درجہ حرارت میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حکومت کے وزراء  پہلے ہی غیر ضروری بیان بازی سے معاملات کو ناصرف خراب کر چکے ہیں بلکہ وہ ہر وقت ٹی وی پر رہنے کے چکر میں ہر وہ بات کرتے رہتے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ حکومتی ترجمانوں کی اکثریت وہ ہے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سیاسی عمل میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے اگر وہ نشر ہو رہے ہیں یا شائع ہو رہے ہیں تو صرف اپنے عہدوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی مشیر یا ترجمان نہ ہو تو ٹی وی چینلز ایک ٹکر اور اخبارات میں ان کی پریس ریلیز بھی نظر نہ آئے۔ افواجِ پاکستان پر اپنے ہی سیاست دانوں کی مسلسل تنقید کے سلسلے کو روکنے کے لیے بھی بات چیت ہی واحد راستہ ہے اور یہ راستہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے نکالنا ہے۔ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ یہ راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر حالات مزید خراب ہوں گے۔ درجہ حرارت بڑھے گا، نفرتیں بڑھیں گی اور دوریاں پیدا ہوں گی۔ یہ سب سیاست دان اسی ملک کے ہیں۔ ان کی سیاست بھی اس ملک میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اچھے ہیں یا برے ہیں جب نظام کا حصہ ہیں تو پھر انہیں بہتر انداز میں آگے لے کر چلنے کی حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو بھی اہمیت دے۔ موجودہ سیاسی حالات میں انہیں مشاورت اور فیصلہ سازی میں شریک کرے۔ ان پر ذمہ داری ڈالے۔ گفتگو کا راستہ نکالے، لوگوں کے تحفظات دور کرے۔ یہی سیاست کا حسن ہے اور یہی جمہوریت ہے۔ معاملات میں مزید بگاڑ سے نقصان عام آدمی کا ہونا ہے۔ ملک و قوم کو اس نقصان سے بچانے کے لیے حکومت  اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...