جناب وزیراعظم! ترجیحات درست کیجئے!

Nov 01, 2020

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

نوٹ:(APNS کے مطابق بیتے دو برسوں (2017-2018 ) کے دوران قومی اخبارات میں چھپے اردو کے بہترین کالم کا اعزاز راقم کی درج ذیل تحریر کو دیا گیا تھا۔ قارئین کے استفادہ کے لئے جسے قندمکرر کے طور پر ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔)
پی ٹی آئی حکومت سو دِن کا ایجنڈا دے چکی۔ جس میں اور تو سب کچھ ہے، مگر ملک کے سب سے بڑے مسئلہ کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں۔حالانکہ زیادہ دن نہیں گزرے آنریبل چیف جسٹس پاکستان نے وطن عزیز میں آبادی کے بے پناہ اضافہ کے بارے میں کہا تھا کہ ایک ایک گھر سے چھ چھ، سات سات، بچے نکلیں گے، تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔ بلاشبہ عزت مآب سمیت ہر ذی شعور پاکستانی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے خوفزدہ ہے۔
انگریز میں ہم لاکھ کیڑے نکالیں، مگر ایک بات ضرور ہے کہ وہ ہر کام بروقت اور سلیقے سے کرتا تھا۔ برصغیر پر گرفت مضبوط ہوتے ہی جہاں ریلوے، پوسٹ آفس اور انہار جیسے میگا پراجیکٹس پر کام شروع کیا، وہیں1881ء میں پہلی مردم شماری کا اہتمام بھی کر ڈالا۔ جس کے مطابق موجودہ پاکستان میں شامل علاقہ کی کل آبادی ایک کروڑ دس لاکھ تھی۔ جو قیام پاکستان کے وقت سوا تین کروڑ ہوگئی۔ 
دو برس پہلے ہونے والی مردم شماری کے مطابق وطن عزیز کی موجودہ آبادی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ گویا گزشتہ اٹھارہ برسوں میں اضافہ کی شرح 57 فیصد رہی۔ اور یوں برازیل کو ’’پچھاڑ‘‘ کر پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا۔ اور ہم سے اوپر محض چین، انڈیا، امریکہ اور انڈونیشیا ہیں۔ اضافہ کی شرح اگر یہی رہی تو 2050 ء تک ہم چین اور انڈیا کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہوں گے۔ کیا ہم اتنی بڑی آبادی کو سنبھال پائیں گے؟ مگر متعلقہ محکموں کی منافقت دیکھئے، جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ وہ شرح آبادی میں خاطر خواہ کمی کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مقام حیرت دو اعشاریہ چار فیصد شرح اضافہ ان کے نزدیک قابل فخر ہے۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ ان کی اس کارکردگی کا مقابلہ دو چار افریقی ملکوں کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایران سمیت تمام جنوبی ایشیا کے حالات ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ہم یہ بھی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے اور 65 فیصد آبادی 30 برس سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس دس کروڑ یوتھ کا ہم کریں گے کیا؟ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ کس طرح اٹھائیں گے؟ ہمارے پاس تو انہیں دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ہم تو انہیں مناسب طور پر گائیڈ بھی نہیں کرسکتے۔ مت بھولئے کہ یہ نوجوان افرادی قوت سودمند ہونے کے بجائے دھماکہ خیز بھی ہوسکتی ہے۔ ایسے میں آپ لاکھ تدبیر کرلیں۔ کھربوں خرچ کردیں، ملک کے اندر سماجی اور معاشی استحکام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
رہے ارباب اختیار، تو ان کے نزدیک یہ مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ تو اس کا ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سینیٹ کے ایک معزز رکن ایک نجی چینل پر بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ ان کے بچوں کی تعداد ماشاء اللہ 13 ہے، اور انہیں سب کے نام یاد نہیں۔ یہ قوم کے نمائندے اور رول ماڈل ہیں۔ اگر ان کا یہ حال ہے تو چنیوٹ کے نواح سے اٹھ کر اسلام آباد آنے والے نذیراحمد کا کیا کیا جائے، جس کی عمر عزیز صرف 33 برس ہے، آٹھ بیٹیوں کے بعد بیٹا پیداہوا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی ایک کچی بستی میں آباد نذیر احمد بے روزگار ہی نہیں ہیپاٹائٹس کا مریض بھی ہے، اور علاج معالجہ ندارد۔ بڑی چار بیٹیاں آٹھ سے چودہ کی رینج میں ہیں، اور گھروں میں کام کرتی ہیں۔ جس سے ان کا گھر چلتا ہے، اور کیسا چلتا ہے؟اس کا اندازہ آپ بخوبی کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں زبان کھولنے کی ہمت نہیں پڑتی اور اگر کوئی ہمت کر ہی بیٹھے ، تو ایک ہی جواب ملتا ہے، ’’اللہ وارث ہے۔ جس نے پیدا کیا وہ روٹی بھی دے گا۔‘‘ یہ مملکت خداداد ایسے متوکلین سے بھری پڑی ہے۔ جن کی فقط ایک ہی کارکردگی ہے کہ اللہ کی مخلوق کو دنیا میں لانے کے بعد ان کی ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جائیں۔ وہ انہیں پاسکتے ہیں نہ پڑھا سکتے ہیں۔ الٹا ان سے آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں، اور پھر چائلڈ لیبر کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کثرت اولاد کے حوالے سے ملائشیا کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر بلادی نے کیا خوبصورت بات کہی ہے۔ کہ کثیر اولاد سوسائٹی میں ناانصافی کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ بچے غریب کے زیادہ ہوں یا امیر کے، نقصان غریب کا ہی ہوتا ہے۔ جس کی مثال یوں ہے کہ صاحب ثروت کی بیس اولادیں بھی ہوں گی تو بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت کے بل پر سوسائٹی سے اپنے حصے سے کہیں زیادہ وصول کرلیں گی۔ جبکہ غریب صرف اس صورت میں پنپ پائیگا، جب نفری کم ہوگی اور وہ ان کو مناسب توجہ دے پائے گا۔ اپنی تحقیق میںڈاکٹر بلادی نے ایسے کئی لوگوں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی، مگر چھوٹے کنبے کی وجہ سے والدین کی توجہ کا مرکز رہے اور عملی زندگی میں کامرانیاں سمیٹیں۔ ایک مثال پاکستان کے ڈاکٹر حارث کی بھی دی گئی ہے۔ جن کا باپ سپیرا تھا، مگر تعلیم کا دیوانہ۔ اور بالآخر اس کا اکلوتا بیٹا سرکاری اسکالر شپ پر برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دیکھا جائے تو ڈاکٹر بلادی کی یہ باتیں کوئی انکشاف نہیں، محض کامن سینس سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور کامرانی کی اس نوعیت کی کہانیاں Succes Stories ہمارے اگرد گرد بکھری پڑی ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس حوالے سے کئی ضرب الامثال بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’چند کو تو سونے کا نوالہ بھی کھلایا جاسکتا ہے اور ریوڑ کے لئے گھاس بھی کم پڑ جاتی ہے۔‘‘مگر کیا کریں، یہاں ایسوں کی بھی کمی نہیں، جو ’’گھر کی فوج‘‘ کو اپنا اثاثہ اور سرمایہ شمار کرتے ہیں۔ گویا کہ ایک لامتناہی کنفیوژن ہے جو افق تا افق پھیلا ہوا ہے، یا بعض حلقوں نے جان بوجھ کر پھیلا رکھا ہے۔(جاری)

مزیدخبریں