وطن عزیز میں اس وقت سیاست کے نام پر ملک کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے کوئٹہ کے جلسے میں مذہبی جماعت کے رہنما اویس نورانی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا دیا تو قومی اسمبلی میں سابق اسپیکر ایاز صادق نے ابھی نندن کی رہائی پر متنازعہ بیان دے کر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایاز صادق کے بیان کی بھارتی میڈیا میں اتنی پذیرائی کی گئی اور پاکستان کا مذاق اڑایا گیا کہ خود ڈی جی آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس کرنا پڑی ۔ اپوزیشن اور اس کی تحریک پی ڈی ایم کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کیوں کہ اس وقت ملک دشمن قوتوں نے پاکستان کے خلاف ایک ہائبرڈ وار شروع کر رکھی ہے جس کو جانے انجانے میں ہماری بعض سیاسی جماعتیں آگے لے کر بڑھ رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے کوئٹہ میں جلسہ کیا تو اس میں اداروں کو ہدف تنقید بنایا گیا اور نوازشریف نے ایک بار پھر اپنی تقریر میں حساس ادارے کے سربراہوں کے نام لے کر رائے زنی کی جو اب محب وطن حلقوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ جلسے میں جمعیت علمائے اسلام نورانی گروپ کے سربراہ اویس احمد نورانی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگایا اور موصوف کہتے ہیں کہ ان کی زبان پھسل گئی لیکن دل کی بات زبان پر آتے دیر نہیں لگتی اور یہی حال اس وقت پی ڈی ایم کے جلسوں کا ہو چکا ہے جہاں دشنام طرازی ، اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا، اپنے مذموم مقاصد کیلئے غیر سیاسی لوگوں کے نام لینااور سب سے بڑھ کر پاکستان کی محافظ اور ملکی سلامتی اور پاکستانیوں کے امن و سکون کی منبع پاک فوج کو نشانہ بنایا جانا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملک فوج نے نہیں بنایا بلکہ سیاست دانوں نے بنایا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ملک فوج نے نہیں برصغیر پاک و ہند کی غیور عوام اور پاکستان کی اساس رکھنے والے درد مند سیاست دانوں جن کی قیادت حضرت قائداعظم کے ہاتھوں میں تھی انہوں نے بنایا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے آج اگر ہم امن و چین کی نیند سو رہے ہیں، اپنے سے سات آٹھ گنا بڑے ملک اور اس کی مسلح افواج سے محفوظ ہیں تو اس کی وجہ صرف پاک فوج ہے جو دن رات ملک کی سلامتی کیلئے کوشاں ہیں۔ اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کانتیجہ ہے کہ دہشت گرد ہمیں ایک بار آپس میں الجھا کر کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں اور پشاور میں ہونے والا دھماکہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ابھی بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان میں جو امن قائم ہوا ہے جس کی خاطر ہزاروں لاکھوں جوانوں نے قربانیاں دی ہیں اور پاکستان سے دہشت گردی کا ناسور ختم ہوا ہے وہ دوبارہ جڑ پکڑ سکتا ہے ۔کیوں کہ بھارت صرف موقع کی تلاش میں ہے کہ کوئی ایسا موقع پیدا ہو کہ وہ ملک پاک میں اپنی گندی سوچ کا بیج بو سکے۔ جب بات ملک کی ہو تو کچھ باتیں یا راز ایسے ہوتے ہیں جن کا برسرعام ذکر کرنا یا ان کے بارے میں ایسی گفتگو کرنا جس سے ابہام پیدا ہو وہ ملک کی محبت نہیں بلکہ ملک سے دشمنی کے مترادف ہوتا ہے اور ن لیگ کے سردار ایا ز صادق نے بھی تحریک انصاف کی دشمنی میں یا حکومت کی دشمنی میں ابھی نند ن کے واقعہ کو جس طرح قومی اسمبلی میں بیان کیا ہے اور پھر اس کے بعد جس طرح بھارتی میڈیا نے ان کے بیان کو اپنے روایتی پروپیگنڈے کا حصہ بنایا ہے اس سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان یہ بات واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے ابھی نند ن کو کسی دبائو کی بجائے جذبہ خیر سگالی کے تحت چھوڑا تھا تا کہ اپنے
سے کئی گنا بڑے ملک کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اگر دوبارہ بھی اس نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو تمہارے جوانوں کا یہی حشر ہو گا جو 27 فروری 2019 کو پاکستان کی سرزمین پر اترنے والے ابھی نندن اور اس کے جہاز کا کیا گیا۔ پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاست یا سیاسی پارٹیاں چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں یعنی چند سیاسی خاندان فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی مانند ہیں اور تمام سیاسی راستوں کے مرکز بنے ہوئے جو جمہوری سوچ اور جمہوری ملک کیلئے نقصان دہ ہیں۔ کیوں کہ جب ایک خاندان یا کوئی ایک شخص کسی پارٹی پر قابض ہو جاتا ہے تو پھر باقی سب اس کی جی حضوری یا اس کی خوش آمدمیں جت جاتے ہیں پھر ان کے سامنے سب سے بڑا مقصد ہی پارٹی لیڈر کی قربت یا اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پھر سیاسی ورکر یا کوئی سیاسی رہنما کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو وہ اپنی توانائیاں صرف ایک شخص یا ایک خاندان کو خوش کرنے میں صرف کردیتا ہے۔ یہی حال اس وقت ملک پاکستان کا ہے یہاں خاندانوں کی خوشنودی کیلئے سیاست دان ایک دوسرے سے تو دست و گریبان تھے ہی لیکن اب وہ پاکستان کے درپے ہو گئے ہیں اور اپنے لیڈروں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کی سا لمیت کے خلاف بولنے یا کام کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی چاہئے کہ ملک دشمن عناصر کو ذرا برابرڈھیل نہ دیں بلکہ ان لوگوں کی طنابیں کسنی چاہئے جو آئے روز پاکستان کے خلاف ملک سے باہر بیٹھ کر دشنام طرازی کر رہے ہیں۔ یہ بات سیاست دانوں کو سیاسی پارٹیوں کو اور ان کے لیڈران یا جو خاندان ان سیاسی پارٹیوں کے مالک بنے ہوئے ہیں انہیں پلے باندھ لینی چاہئے کہ یہ ملک ہے تو سیاست بھی ہے اگر یہ ملک نہیں ہوگا تو پھر یہ نہ سیاست ہو گی اور نہ ہی وہ موجیں ہوں گی جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں اس لئے ملک کی سلامتی کیلئے سب مل کر کام کریں اسی میں سب کی فلاح ہے۔آخر میں پروین شاکر کا شعر ان احباب کی نذر ہے جو کھاتے پیتے تو پاکستان کا ہیں لیکن گن کسی اور کے گاتے ہیں
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
٭…٭…٭