1974ء کے وسط کی بات ہے میرے ’’صحافتی مرشد‘‘ آغا شورش کاشمیری مرحوم پر اہم مشن پر راولپنڈی آئے تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اس زمانے میں موبائل فون سروس تھی اور نہ ہی نجی ٹی وی چینل ہوا کرتے تھے اس لئے اہم نوعیت کے سیاسی واقعات کے بارے بمشکل معلوم ہوتا تھا، کئی دن گذرنے کے بعد خبر منظر عام آتی تھی۔ میں نے لاہور رابطہ کر کے یہ تو معلوم کر لیا کہ آغا شورش کاشمیری راولپنڈی آئے ہیں لیکن ہفت روزہ چٹان کی انتظامیہ نے ان کی راولپنڈی میں مصروفیات کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا تاہم کچھ دنوں بعد مجھے ان کی راولپنڈی آمد کا اصل مقصد معلوم ہو گیا ۔ بعد ازاں آغا شورش کاشمیری نے خود بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ ان کی راولپنڈی آمد کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات تھا ۔ ان دنوں وزیر اعظم کی قیام گاہ راول پنڈی میں تھی جو بعد ازاں آرمی ہائوس بن گئی۔آغا شورش کاشمیری اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شدید سیاسی اختلافات کے باوجود باہم رابطہ قائم تھا ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔ پورے ملک میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا پورے ملک میں آگ لگی ہوئی تھی احتجاجی مظاہروں نے فسادات کی شکل اختیار کر لی تھی۔ گو ذوالفقار علی بھٹو ایک ترقی پسند لیڈر تھے لیکن وہ راسخ العقیدہ مسلمان حکمران کی حیثیت سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے لیکن یہ کامیابی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت ہوئی جب ختم نبوت کے تحفظ کے لئے طویل جدوجہد کرنے والی شخصیت آغا شورش کا شمیری نے ان کا حوصلہ بڑھایا ۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے 7ستمبر1974ء کو قا دیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنے آپ کو امر کر دیا جہاں ضروری ہوا وہاں ’’ختم نبوت پر ایمان ‘‘ کے حلف کو شامل کر دیا گیا ۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد آئینی طور پر بھی ان کو امت مسلمہ سے الگ کر دیا گیا۔ پچھلے 46سال سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دئیے جانے کے فیصلے کو آئین 1973ء سے نکلوانے کی پس پردہ کوششیں ہوتی رہیں لیکن امت مسلمہ کی بیداری نے کسی جمہوری و غیر جمہوری حکومت کو آئین میں شامل قادیانیوں سے متعلق کسی شق کو نکلوانے نہیں دیا اب پھر آئین پاکستان کے باغیوں نے اقلیتی کمیشن میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی لیکن دینی جماعتوں کی ’’ بیداری ‘‘ نے حکومت کو ’’پسپائی ‘‘ پر مجبور کر دیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیرنور الحق قادری نے قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو نمائندگی دینے کی تردید کر دی ۔ ۔دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ کر دیا گیا۔’’جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں‘‘ پاکستان میں جب بھی فتنہ قادیانیت سر اٹھتا ہے تو تحریک ختم نبوت میں صف اول میں حصہ لینے والے رہنمائوں سید ابواعلیٰ مودودی، مولانا عبدالستا ر خان نیازی، مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی ، آغا شورش کاشمیری۔مولانا تاج محمود کی بہت یاد آتی ہے ۔ان جید شخصیات نے اپنے اپنے ادوار میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے میں اہم کر دار ادا کیا اور پھر سب سے زیادہ کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جنہوں کسی دبائو کی پرواہ کئے بغیر قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر اس فیصلہ کو آئینی تحفظ دے دیا۔
7ستمبر1974ء ہماری قومی تاریخ میں یادگار دن کی حیثیت رکھتا ہے جب مسلمانا ن پاکستان کم وبیش ایک صدی کی جدو جہد کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیا ب ہو ئے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوا جب اقلیتوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی تحریک کو جہاں عوام کی بے پناہ حمایت حاصل تھی وہاں پرنٹ میڈیا میں روزنامہ نوائے وقت اور ہفت روزہ چٹان نے اس تحریک کی پشت بانی کی۔ روزنامہ نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ مجید نظامی اور ہفت روزہ چٹان کے مدیر اعلیٰ آغا شورش کاشمیری کا تعلق سیاسی لحاظ سے مختلف مکاتب فکر سے تھا لیکن دونوں اسلام اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لئے ایک صفحہ پر تھے دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کا دشمن ان کا ازلی دشمن ہو تا تھا اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ دونوں نے لاہور میں اسلام اور نظریہ پاکستان کا مورچہ لگا رکھا تھا۔ جب دونوں اسلام آبادآتے تو اکٹھے سفر کرتے اور ایک ہی جگہ پر قیام کرتے اور اکٹھے ہی اپنا لائحہ عمل بناتے ۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی تو اسے مجید نظامی اور آغا شورش کا شمیری کی بھرپور حمایت حاصل تھی مجھے یاد ہے آغا شورش کاشمیری مجید نظامی کی مشاورت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے وہ جولائی1974ء کو لاہور سے راولپنڈی آئے اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے قادیانیوں اقلیت قرار دینے کا مشورہ دیا ۔ اگرچہ7ستمبر1974 کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا ہے لیکن پچھلے46سال سے آئین پاکستان سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے فیصلے کو کسی نہ کسی طریقے سے نکالنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں جن کو ناکام بنانے کے لئے امت مسلمہ بیدار اور چوکس ہے۔ ختم نبوت پر یقین رکھنے والی قوتیں آئینی ترمیم پر پہرہ دے رہی ہیں جب کہ روزنامہ نوائے وقت ان قوتوں کا دست و بازو ہے جب انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری کے وقت درپردہ ختم نبوت پر یقین کے حلف کے ساتھ’’ چھیڑ چھاڑ‘‘ کی گئی تو جہاں مسلمانان پاکستان سڑکوں پر نکل آئے وہاں نوائے وقت نے اسلامیان پاکستان کی پشت بانی کی ۔ روزنامہ نوائے وقت نے ہمیشہ ختم نبوت کانفرنسوں کی نمایاں کوریج کی اور اس تاثر کو تقویت دی کہ روزنامہ نوائے وقت ان قوتوں کی پشت پر کھڑا ہے۔(ختم شد)