ایک مشکل سفر کا آغاز 

Nov 01, 2020

جاوید صدیق

پاکستان بننے کے فوراً بعد ہمارے لیڈروں کو یہ خدشہ تھا کہ پاکستان کو کمزور کرنے اور اسے غیر مستحکم بنانے کیلئے ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ اس زمانے میں بھارتی لیڈروں کے یہ بیانات اکثر تواتر سے آتے تھے کہ پاکستان چند سالوں تک وجود میں رہنے کے بعد بکھر جائے گا اور پھر ہندوستان کا حصہ بن جائے گا۔ یہی وہ خدشہ تھا جس کی وجہ سے ہمارے لیڈر 50 ، 60 اور70 کی دہائی تک مضبوط مرکز کے نظریے پر کاربند رہے۔ ان کا خیال تھا کہ مرکز کو یعنی وفاق پاکستان کے دارالحکومت کو مستحکم اور مضبوط بنایا جائے اور صوبائی عصبیت پر مبنی نعروں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مرکز کو مضبوط بنانے سے مراد وفاق کو مضبوط بنانا تھا۔ اسی نظریے کو پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے تقویت دینے کیلئے ’’ون یونٹ‘‘ تخلیق کیا۔ ون یونٹ میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ایک وحدت یا اکائی بنا دیا گیا۔ ایوب خان کی اس اکائی کے خلاف پاکستان کی اپوزیشن اور جمہوری قوتیں مسلسل برسر پیکار رہیں حتیٰ کہ جب 1968 میں اینٹی ایوب تحریک چلی تو اس کا بنیادی مطالبہ وفاقی طرز حکومت کی بحالی اور ون یونٹ کا خاتمہ تھا۔ 
مضبوط مرکز کے تصور کی بنیاد پر ایسے تمام لیڈران کی حوصلہ شکنی کی گئی جو صوبائی خود مختاری اور صوبائیت کے نام پر سیاست کر رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن، جی ایم سید، باچا خان اور کچھ بلوچ لیڈروں سے یہی شکوہ رہا کہ وہ ایسے نعرے لگا رہے ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم بنا سکتے ہیں۔ جی ایم سید نے جئے سندھ کا نعرہ، باچا خان اور ان کے خاندان نے پختونستان  اور شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان کو خود مختار بنانے کا نعرہ اور بلوچ قوم پرست لیڈروں نے بلوچستان کو  خود مختار بنانے کا نعرہ لگایا۔ ان نعروں کی حوصلہ شکنی کیلئے مختلف حکمت عملیاں بنتی رہیں، ان نعروں کی مخالفت پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ہمیشہ کی۔ مسلم لیگ ایک مضبوط مرکز یا مضبوط وفاقی نظام کے حق میں رہی۔ پاکستان کی صوبائی اکائیوں میں وفاق کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کیلئے سب سے زیادہ موثر کردار پنجاب نے ادا کیا۔ ایک دور میں مشرقی پاکستان اور  مغربی پاکستان کی تین وفاقی اکائیاں پنجاب پر الزام لگاتی رہیں کہ وہ دوسرے صوبوں کا حق مار رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سول اور فوجی اسٹبلیشمنٹ میں عددی اعتبار سے پنجابیوں کو برتری حاصل تھی۔ اس برتری کو وفاق کی دوسری اکائیاں ایکسپلائٹ کرتی تھیں لیکن پنجاب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور پاکستان کے وفاقی کو مضبوط کرنے کا اپنا کردار جاری رکھا۔ پھر 90 کی دہائی میں ایسا وقت بھی آیا جب مسلم لیگ ن ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری اور اس نے پیپلز پارٹی جیسی مقبول جماعت کا مقابلہ شروع کیا۔ اس دور میں ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ بینک آف پنجاب بھی بنایا گیا۔ ان کے ردعمل میں بینک آف خیبرپختونخواہ بنایا گیا۔ پنجاب کے علاوہ وفاق کی باقی اکائیاں یہ بھی کہتی رہیں کہ پاکستان کی اسٹبلیشمنٹ میں پنجاب کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔ وہ اسے ہمیشہ پنجابی ڈامینیٹڈ اسٹبلیشمنٹ کہتی رہیں حالانکہ اسٹبلیشمنٹ میں یعنی پاکستانی فوج میں پنجاب ، فرنٹینئر، بلوچستان اور سندھ تمام صوبوں کی نمائندگی رہی ہے۔ اس مرتبہ ایک بڑے قد کاٹھ کے پنجابی لیڈر نواز شریف نے پنجاب کی روایت سے ہٹ کر اسٹبلیشمنٹ کیخلاف پوزیشن لی ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ جلسوں میں انھوں نے کھل کر پاکستانی اسٹبلیشمنٹ اور اس کے سرکردہ افراد کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ یہ روش اور طرز عمل پنجاب کے مزاج کے خلاف ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں بھاری اکثریت رکھتی ہے اور اس کے سپورٹرز اسٹبلیشمنٹ کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس طرح کی سوچ نہیں رکھتے۔ جس طرح کی سوچ بعض وفاقی اکائیوں میں پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کو اس سوچ اور طرز فکر کو مقبول بنانے کیلئے بہت سی مشکلات کو عبور کرنا پڑے گا۔ انھوں نے اپنے حامیوں کی اکثریت کو ایک سوچ اور فکر کے بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے اپنے بھائی شہباز شریف بھی شاید اس نظریے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ اس سوچ کو پروان چڑھاتے رہے کہ مسلم لیگ کو اسٹبلیشمنٹ کیساتھ مفاہمت کیساتھ چلنا چاہیے۔ اینٹی اسٹبلیشمنٹ فکر مسلم لیگ ن میں پروان نہیں چڑھ سکے گی۔ پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے خطاب کیا تو ان کے اپنے حامی بھی شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ن لیگ کے اندر یہ بحث اب بھی چل رہی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سوچ اور ان کی حکمت عملی کو کس حد تک ان کے سیاسی قلعے پنجاب میں پذیرائی مل سکے گی۔ یہ ایک طرح سے مسلم لیگ ن کی آزمائش ہو گی۔ ایک طویل عرصے تک اسٹبلیشمنٹ کی مدد اور تعاون سے اقتدار میں آنے اور اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے یہ مساوات موثر طور پر کام کرتی رہی۔ اب اس میں تبدیلی لانے سے مسلم لیگ ن کو کس حد تک کامیابی ملے گی، اس کے بارے میں ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ 
پاکستان کی باقی اکائیوں کے کچھ قوم پرست لیڈر بہت خوش ہیں کہ پنجاب سے اسٹبلیشمنٹ کے خلاف ایک مقبول لیڈر نے آواز اٹھائی ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ پاکستان کی خالق جماعت قائداعظم کی مسلم لیگ کی وارث ہے، وہ کس طرح اس نئی سوچ کو لے کر آگے بڑھے گی۔ اس سفر میں اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
مسلم لیگ ن دور کے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پاکستان پر حملہ آور ہونے والے بھارتی پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے بارے میں جو ریمارکس دیئے ہیں اس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ مسلم لیگ ن ایک نئے  بیانیہ کو اپنا رہی ہے۔ یہ بیانیہ اس کے ووٹروں اور حامیوں میں کس حد تک پذیرائی حاصل کر سکے گا یہ ایک مشکل سوال ہے۔

مزیدخبریں