سیاسی جماعتوں میں ٹکراؤ کا نتیجہ کیا ہوگا؟

Nov 01, 2020

ہمیشہ سے ہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے لیکن ستر سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی پاکستان اسی طرح قائم و دائم ہے۔پاکستان کی موجودہ سیاسی حالت دیکھ کر اب بھی یہی لگتا ہے کہ یہ نازک ترین دو ر ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کسی صورت ایک ساتھ بیٹھنے کو،ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو یا ملک کے مسائل کو مل کر حل کرنے کو تیار نہیں۔حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جیسے معاملے پر بھی سیاسی شخصیات اور جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آتیں۔شاہ محمود قریشی اس معاملے پر اسمبلی میں قرارداد پیش کررہے تھے تو اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں شور شرابہ کیا گیا۔پشاور میں مدرسے میں دھماکہ ہوا کئی طالب علم شہید ہوئے اور کئی زخمی بھی لیکن پھر بھی الزام تراشیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا۔کورونا وبا کی وجہ سے اسکول بند کرانے والی جماعتیں بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کہ بعد اب جلسے پر جلسہ کررہی ہیں شاید اب کورونا چھٹی پر جاچکا ہے۔اس تمام صورتحال کے متعلق مسلم لیگ فنکشل کے مرکزی نائب صدریاسر سائیں کاتجزیہ ہے کہ فرانس کی جانب سے ایسا کیا جانا عالمی امن کو تباہ اور خراب کرنے کی کوشش ہے حضورﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے۔ اس معاملے پر مسلم ممالک کو ایک ہوجانا چاہیئے۔ان کی یہ بات سن کر مجھے  ان میں انکے نانا پیر صاحب پگارا پیر مردان شاہ صاحب کی جھلک نظر آئی۔پیر مردان شاہ صاحب بھی اسلام اور پاکستان کے معاملے میں بہت حساس تھے اور 1965کی جنگ میں کامیابی میں انکا اور انکے حر مجاہدین کا اہم کردار بھی ہے۔ان کا مزید کہنا تھاکہ ہم دراصل جہادی لوگ ہیں اور پاکستان کا ہر فرد چاہے اسکا تعلق کسی گروہ سے کسی سیاسی جماعت سے کسی مسلک سے وہ ملک کیلئے جان دینے کو تیار ہے  اور یہ بات  دنیا کے تمام ممالک جانتے ہیں اس لئے وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے اور اگر ایسی غلطی کسی کی جانب سے کی بھی جاتی ہے تو قوم تمام تر سیاسی اختالف بھلا کر اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔سیاسی صورتحال پر انکا کہنا تھا کہ ہم بھی حکومت کے اتحادی ہیں ملک جس مشکل صورتحال میں ہے اسکی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈالنا درست نہیں سابقہ ادوار میں جو کرپشن کی گئی وہ آج موجودہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کررہی ہیں لیکن حکومت عوام کو ہر بات کے جواب میں یہی وجہ پیش نہیں کرسکتی حکومت کو اپنی کارکردگی سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔ ہر جماعت کی اپنی پالیسی ہوتی ہے لیکن میں بطور سیاستدان ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی کرنے اور ہر وقت پریس کانفرنسوں میں مصروف رہنے کے حق میں نہیں ہوں۔آگے بڑھنے کیلئے ارد گرد کی آوازوں کو نظر انداز کرکے منزل پر توجہ رکھنا ضروری ہوتا ہے حکومتی ذمہ داروں کو بھی اپوزیشن کے احتجاجوں اور بیانات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا ہوگا اوراپنی کارکردگی عوام کو دکھانا ہوگی۔ دنیا میں سب سے بڑی تبدیلی حضورﷺ کے دور میں آئی اگر عوام اور حکمران چاہتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی آئے تو دونوں کو اس دور کے قوانین اور اصولوں کو اپنانا ہوگا۔بلاشبہ نہ تو پاکستا ن کا ترقی کرنا ناممکن ہے اور نہ ہی تبدیلی کا آنا لیکن عوام اور حکمرانوں کو اس معاملے میں سنجیدگی کا اظہار کرنا ہوگا۔اپوزیشن جماعتیں جس طرح آج حکومت گرانے کیلئے ایک ہیں اگر اسی طرح حکومت پر کارکردگی دکھانے کیلئے دباؤ ڈالنے کی خاطر ایک ہوجائیں،حکومتی ترجمان اپوزیشن کیخلاف پریس کانفرنسوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دے دیں۔عوام میں حقیقی شعور آجائے تو ملک میں بدلاؤ آسکتا ہے۔مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی ایک ہونا ہوگا اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا  یہ تمام مسلما ن ممالک کی ذمہ داری ہے۔

مزیدخبریں