دو ہفتوں سے پاکستان کے اکثر شہروں میں راستے بند پڑے ہیں۔برطانیہ سے اختر وحید نے جھلا کر فون کیا کہ آپ میڈیا کے لوگ راستے بھی نہیں کھلوا سکتے۔ میں نے کہا نہ میڈیا کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے نہ میڈیا کے پاس کوئی ایسی قوت ہے جس کو وہ میدان میں جھونک سکے اور نہ ہی طاقت کے استعمال سے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی یہ بات ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اپنے دشمن طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے،پاکستان اپنے ازلی دشمن بھارت سے مذاکرات کرتا رہا ہے اور اب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا عندیہ دے دیا گیا ہے تو ٹی ایل پی سے مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے؟ میں نے اختر وحید سے کہا کہ چودھری پرویز الٰہی تو حکومت کے اتحادی ہیں ان کی بات کو سنی ان سنی کر دیا جاتا ہے تو ہم میڈیا کے لوگ کس باغ کی مولی ہیں، ہماری کون سنے گا۔ اختر وحید صاحب نے ہار نہ مانی اور کہنے لگے کہ آپ لوگ کم از کم اخبارات اور ٹی وی پر یہ پرچار تو کر سکتے ہیں کہ اسلام راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کی تلقین کرتا ہے۔راستے میں روڑاپڑا ہوتو حکم یہ ہے کہ اسے اٹھا کر ایک طرف کردو، کانٹے بکھرے ہوں تو انہیں جھاڑو سے صاف کردیا جائے۔اختر وحید نے کہا کہ ہم عام زندگی میں بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں جو غیر اسلامی دنیا ہے اس نے اسلامی احکامات کو اپنا لیا ہے اور کیا مجال کہ امریکہ یا یورپ میں یا ایشیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی شخص گلی محلے کی سڑک یا بڑی شاہراہ پر ٹریفک کے بہائو کو روکنے کی جرأت کرسکے۔ان ممالک میں قانون یہ ہے کہ آپ احتجاج یا مظاہرہ کرنے کا آئینی حق رکھتے ہیں لیکن اس کیلئے آپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ سرکاری اداروں کو اعتماد میں لیں، ان کو اپنے روٹ پلان سے آگاہ کریں اور پھر ٹریفک پولیس آپ کو پابند کریگی کہ آپ سڑک یا گلی کے ایک طرف چلیں گے تاکہ عام لوگوں کی ٹریفک کے بہائو میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔آپ برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کے سامنے کھڑے ہوکر بھی مظاہرہ کرسکتے ہیں لیکن آپ کو بتانا ہوگا کہ کتنے لوگ پلے کارڈ لیکر کھڑے ہونگے۔برطانیہ میں مسلمان کثرت سے آباد ہیں،اس لیے ربیع الاول کے مقدس لمحات میں ہم اجازت لے کر ایک خاص روٹ پر میلاد النبی ﷺ کا جلوس نکالتے ہیں۔اسی طرح محرم الحرام کے دنوں میں ذوالجناح کا جلوس بھی باقاعدہ اجازت سے نکالا جاتا ہے۔اورنہ حکومت کوئی اسکے راستے میں رکاوٹ ڈالتی ہے نہ ہم جلوس نکالنے والے عوامی ٹریفک کیلئے کوئی مسئلہ کھڑا کرتے ہیں۔امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہائوس کے باہر بھی اجازت لیکر مظاہرہ کیا جا سکتا ہے، پولیس مظاہرین سے کوئی تعرض کرتی ہے نہ کوئی لاٹھی گولی چلتی ہے۔جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کشمیری مسلمان اور خالصتان کے حامی بھی مظاہرہ کرتے ہیں لیکن وہ کسی کیلئے باعث آزار نہیں بنتے۔اور نہ اقوام متحدہ کی انتظامیہ انہیں کوئی آزارپہنچاتی ہے۔عراق پر جب امریکہ نے حملہ کیا تو دنیا بھر کے کروڑوں عوام نے جلسے جلوس اور مظاہرے کیے،اس دوران کہیںسے بھی یہ خبر سننے کو نہیں ملی کہ کوئی پولیس والا زخمی یا ہلاک ہوا ہو یا پولیس والوں نے کسی کو زخمی یا ہلاک کیا ہو۔اختر وحید نے کہا کہ پاکستان کا باوا آدم نرالا ہے، اگر کوئی صاحب مکان بنارہے ہوں تو وہ اینٹیں، ریت اور بجری وغیرہ عین سڑک پر ڈھیر کروادیتے ہیں،کسی نے مہندی، شادی یابارات کا اہتمام کرنا ہوتو وہ سڑک پر قناتیں گارڑ دیتا ہے۔ چند برس قبل دو سیاسی جماعتوں نے حکومت کیخلاف دھرنا دیا جس سے نہ صرف اسلام آباد کے مکینوں کو نقل وحرکت میں مشکل پیش آئی بلکہ پارلیمنٹ سمیت سفارتخانوں تک رسائی ناممکن بنا دی گئی۔کئی منچلوں نے تو شلواریں دھو کر سپریم کورٹ کی دیوار پر خشک ہونے کیلئے پھیلا دیں۔سرکاری دفتروں میں کام رک گیا، عدالتوں کے سائل رل گئے اور سفاتخانوں کی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو کر رہ گئیں۔انتخابی جلسے جلوسوں کا عام رواج ہے کہ جلسہ مینار پاکستان پر رکھا جاتا ہے اورسڑکیں چاروں طرف کے شہروں سے آنے والی ریلیوں سے اٹ جاتی ہیں۔تاجروں اور دکانداروں کا جب دل چاہے شٹر ڈائون کرکے بازاروں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔میلوں ٹھلوں کے موقع پر نوجوان سڑکوں پر دھمالیں ڈالتے نظر آتے ہیں، کسی کو پروا نہیں کہ کسی ایمبولینس نے ہسپتال پہنچنا ہے ،کسی شخص نے اپنے دفتر میں حاضری دینی ہے،کسی معزز جج نے عدالت لگانی ہے،احتجاجی مظاہرین کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔اختر وحید نے کہا کہ اب پاکستان میںمہنگائی کے مسئلے پر جلوس شروع ہوگئے ہیں، اس سے مہنگائی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا لیکن یہ مظاہرے عوام کیلئے وبال جان بن جائینگے۔اختر وحید نے کہا کہ پاکستان میں مظاہرین کا راستہ روکنے کیلئے حکومت نے نت نئے ہتھکنڈے استعما ل کرنے شروع کردیئے ہیں ،سامان سے بھر ے ہوئے کنٹینر پولیس ہتھیا لیتی ہے اور انہیں مختلف چوکوں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، مظاہرین کا راستہ تو یہ کنٹینر نہیں روک سکتے کیوںکہ وہ زرو لگا کر انہیں ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور کنٹینر کے اندر کا سامان کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔کنٹینر والا الگ پریشان اور جس کا سامان لدا ہوتا ہے وہ الگ سر پکڑ لیتا ہے کہ اس نقصان کو کون پورا کریگا۔میاں نوازشریف کے دور میں انکے وزیر داخلہ چودھری نثارنے پشاور سے آنے والے جلوس کا رستہ روکنے کیلئے موٹر وے پر خندق کھود ڈالی تھی ۔موجودہ حکومت کوبھی یہ ترکیب بہت پسند آئی ہے، اس نے ٹی ایل پی کا راستہ روکنے کیلئے جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ خندقیں کھود ڈالی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مظاہرین یہ خندقیں پھلانگ کر آگے بڑھ رہے ہیں مگر ان کی گاڑیاں آگے کیسے بڑھ رہی ہیں، یہ راز میڈیا والے ہی جانتے ہیں۔اختر وحید نے دکھی دل سے کہا کہ پاکستان کو دنیا میں ایک تماشا بنا دیا گیا ہے۔کاش یہاں قانون اور اسلام کی عملداری قائم ہو اورجس کسی کو احتجاج یا مظاہرے کاشوق ہو وہ اسلام اور عالمی قوانین کے تحت کسی دوسرے کا راستہ نہ روکے۔حکومت بھی کنٹینر پالیسی سے باز آئے اور مظاہرین کو روکنے کیلئے دنیا کے مہذب طریقے استعمال کرے۔اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا اور پاکستان کی بھی نیک نامی ہو گی۔