نازیہ حسن کے منفرد پرستار!!!!

Nov 01, 2021

ناصر رضا کاظمی

چند روز قبل ایک شاپنگ مال میں جانے کا اتفاق ہوا، شاپنگ مال میں داخل ہوتے ساتھ ہی نازیہ حسن کی مسحور کن آواز کانوں سے ٹکراتی ہے۔ آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے ہاں بات بن جائے۔ یہ گانا مجھے اس دور میں لے گیا جب یہ گانا ریلیز ہوا تھا، گانا ریلیز ہوئے دہائیاں گذر چکی ہیں، نازیہ حسن کے انتقال کو اکیس برس ہو چکے ہیں لیکن آج بھی پاکستان کی اس عظیم گلوکارہ کا سحر قائم ہے۔ میں یہ گانا سنتے سنتے چل رہا تھا پھر نازیہ حسن کی جادوئی آواز اور بہترین میوزک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک کافی شاپ پر بیٹھ گیا۔ ایک کے بعد ایک گانا چلتا رہا اور یہ گانے مجھے ماضی میں لے گئے۔ وہ کیا شاندار خاتون تھیں، کتنی جلدی جلدی انہوں نے سارے کام کیے، شہرت کی بلندیوں پر پہنچیں، ان کی شہرت اور پرستاروں کا حلقہ صرف ایک یا دو ملکوں تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ تھیں۔ 
نازیہ حسن بلاشبہ پاکستان کی پہلی سپرسٹار تھیں جنہیں بین الااقوامی شناخت ملی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فن گلوکاری میں ان کی آمد سے پہلے پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کمی موجود تھی۔ جب نازیہ حسن کا کیرئیر شروع ہوا اس سے پہلے بھی پاکستان میں کئی بڑے گلوکار موجود تھے لیکن نازیہ حسن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی گلوکارہ تھیں جن کی صلاحیتوں کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا گیا۔ جہاں جہاں میوزک سنا جاتا ہے وہاں وہاں نازیہ حسن کے پرستار موجود ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے گانے آج بھی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ کئی ایک کمرشلز کے لیے نازیہ حسن کے گانے آج بھی استعمال ہوتے ہیں، آج بھی مختلف زبانوں میں ان کے گانوں کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بچے بھی ان کی آواز کے مداحوں میں شامل ہیں۔ نجانے کیا ایسی خاص چیز ہے کہ بچے بھی کھنچے چلے جاتے ہیں۔ جتنی جلدی جلدی انہوں نے شہرت حاصل کی اور سب کام کیے اسی طرح کم عمری میں ہی۔ دنیا سے چلی گئیں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ آج کے دور میں اگر نازیہ حسن زندہ ہوتیں تو وہ کتنی بڑی سٹار ہوتیں۔ وہ بہت بڑی کراؤڈ پلر تھیں۔ شہرت دولت، عزت، اہمیت جس کے لیے لوگوں کی زندگیاں لگ جاتی ہیں یہ تمام چیزیں نازیہ حسن کے نام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ تاریخی کامیابیوں کے باوجود ان میں کمال کی عاجزی تھی، ان کا معصوم چہرہ آج بھی پرستاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ انہوں نے صاف ستھری زندگی گذاری ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے پرستار آج بھی اپنی پسندیدہ گلوکارہ، پسندیدہ شخصیت کے ساتھ ایسی جذباتی وابستگی رکھتے ہیں کہ نازیہ حسن کی زندگی کے مشکل اور تلخ واقعات دیکھ کر تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں نازیہ حسن کے بھائی نے اپنی مرحومہ بہن کی برسی کے موقع پر ایک انٹرویو میں ان کے انتقال کی ایک وجہ کو بیان کیا۔ چونکہ نازیہ حسن کے پرستار ان کے ساتھ بہت جذباتی وابستگی رکھتے ہیں وہ جب بھی ان کی شادی شدہ زندگی کو یاد کرتے ہیں یا اس حوالے سے کوئی چیز دیکھتے ہیں تو انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے اس کا اندازہ پہلے بھی تھا لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں نازیہ حسن کی شادی شدہ زندگی یا ان کی ذاتی تصاویر کو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ان وڈیوز پر لوگوں نے نہایت سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نازیہ حسن کے پرستار آج بھی ان کی شادی شدہ زندگی کو یاد کرتے ہوئے دکھی ہوتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز یا تصاویر اپلوڈ کرنے والا وہ کوئی بھی شخص ہے اسے کم از کم پاکستان کی اس عظیم خاتون کے کروڑوں پرستاروں کے احساسات کا ضرور خیال کرنا چاہیے۔ آخر ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو عام کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ نازیہ اپنی شادی شدہ زندگی کی تکالیف بارے بیماری کے دنوں میں دیے گئے انٹرویوز میں خاصی تفصیل سے بتا چکی ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت میں بھی ان کے انٹرویوز شائع ہوئے ہیں جب کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ لندن میں نوائے وقت کے کارسپانڈنٹ سلطان محمود سے ان کا ایک انٹرویو طے تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ جن لوگوں کی وجہ سے نازیہ حسن کی ہنستی مسکراتی زندگی کو تکلیف پہنچی ان کے پرستار اس تکلیف اور ان کرداروں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ جو لوگ آج ان کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں وہ نازیہ کو تو نقصان یا تکلیف نہیں پہنچا سکتے لیکن ان کے پرستاروں کے لیے تکلیف کا سبب ضرور بن رہے ہیں۔ کئی ویڈیوز میں حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ کہیں کوئی یہ بتاتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام میں اکیلی تھیں یا کسی نے ان کا خیال نہیں رکھا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ نازیہ حسن کے والدین علاج کے وقت ان کے ساتھ تھے اور ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے اور علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ انہوں نے آخری چند سال کس تکلیف میں اور کیوں گذارے تھے اس حوالے سے کئی چیزیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 
وہ اتنی شاندار خاتون تھیں کہ فن گلوکاری میں ان جیسی کوئی آواز آج بھی پاکستان میں نظر نہیں آتی۔ وہ پاکستانیوں کے دلوں کی ملکہ تھیں۔ نازیہ حسن کے انتقال کو اکیس برس گذر چکے ہیں لیکن ان کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی، لوگ آج بھی انہیں ویسے ہی پسند کرتے ہیں جیسے اسی کی دہائی میں کرتے تھے۔ 
انہیں پاکستان کی لیڈی ڈیانا بھی کہا جاتا تھا۔ اس حوالے سے ایک بہت دلچسپ واقعہ قارئین کے سامنے رکھتا ہوں۔ اسلام آباد میں لیڈی ڈیانا کی یاد میں ایک ریفرنس کا انعقاد کیا گیا نازیہ حسن بھی اس تقریب کا حصہ تھیں۔ گوکہ یہ تقریب لیڈی ڈیانا کی یاد میں تھی لیکن وہاں موجود لوگ نازیہ حسن کے گرد جمع ہو گئے اور نازیہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ میزبان کو مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ تقریب لیڈی ڈیانا کی یاد میں ہے۔ جب میزبان نے یہ کہا تو ایک خاتون نے کہا کہ ہماری لیڈی ڈیانا تو نازیہ حسن ہیں۔
آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ہم آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں، ان کی مسحور کن آواز ہمارے لمحات کو یادگار اور شاندار بناتی ہے، ان کی آواز ہمارے بچوں کے موڈ پر اچھا اثر کرتی ہے۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہمیں خوشگوار ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ اتنی شاندار خاتون کے دنیا سے جانے کے بعد ان کی زندگی کو منفی انداز میں زیر بحث لانا یا لاتے رہنا، کسی بھی پہلو کو منفی انداز میں یا پھر حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ وہ ہمارا فخر تھیں اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین

مزیدخبریں