اسلام آباد (اعظم گِل) سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر توہین عدالت کیس میں چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ کے ڈی چوک نہ آنے اور پر امن رہنے کی یقین دہانی کا علم نہیں تھا۔ دوسری جانب ان کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا جس مقدمے میں سپریم کورٹ نے اپنا حکم جاری کیا اس میں فریق یا پی ٹی آئی کا وکیل نہیں تھا۔ بابر اعوان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی نہیں کروائی گئی تھی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت دو نومبر کو ہوگی۔ وزارت داخلہ کی جانب سے توہین عدالت کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں یا ان کی طرف سے عدالت کو دی گئی یقین دہانی کا کوئی علم نہیں تھا اور نہ ہی انہیں عدالت کی جانب سے ڈی چوک کے حوالے سے عدالتی حکم کا علم تھا۔ جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا احترام ہے، سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان کی دو صفحات پر مشتمل مختصر جواب عدالت میں جمع کروایا گیا ہے جبکہ تفصیلی جواب کیلئے3 نومبر تک کی مہلت مانگی گئی ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس، عمران خان کے بعد ان کے وکیل فیصل چوہدری نے یقین دہانی سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مو قف اختیار کیا لانگ مارچ کے حوالے سے درخواست میں فریق تھا نہ توہین عدالت کیس میں ہوں‘ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت بھی فریق تھی نہ ہی میں ان کی وکالت کر رہا تھا۔ عدالت کے کہنے پر ہی پیش ہوا تھا۔ فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر پی ٹی آئی قیادت سے رابطے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی، ڈاکٹر بابر اعوان نے اسد عمر کو عدالتی احکامات سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایات لیں‘ کیس کے بعد عدالت نے عمران خان سے ملاقات کا بندوبست کرنے کا حکم دیا جس پر انتظامیہ نے عمل نہیں کیا۔ عدالتی حکم پر حکومتی ٹیم سے ملنے کمشنر آفس گئے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا، عمران خان سے رابطہ اور ملاقات لانگ مارچ کے بعد جون کے پہلے ہفتے میں ہوا۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا اپنے جواب میں کہنا ہے کہ مقدمہ میں فریق تھا نہ ہی کسی ادارے کی رپورٹ میں میرا نام آیا‘ کسی بھی رپورٹ میں مجھ پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ 25 مئی کے عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔