اردو شاعری میں مرزاغالب کا مقام پر اس وقت بحث نہیں کر رہے مگروہ ایسی شاعری کر گئے ہیں کہ اب بھی تروتازہ لگتی ہے ان کے کلام میں معیشت کی باتوں کو تلاش کرنا عجب سا لگتا ہے ،مگر کیا کیا جائے امام شاعری کے کلام سے اشارے مل ہی جاتے ہیں ، سخن فہمی کا ذوق رکھنے والوں سے پیشگی معذرت کے ساتھ ان کے شعر کا حوالہ دے رہا ہوں جس کی لفظی تشریخ کچھ یوں ہے کہ قرض کی پیتے تھے اور اس کے نتیجہ میں فاقہ مستی کے رنگ آنے کی امید لگا بیٹھے تھے ،اس شعر کی جانب خیال اس لئے گیاکہ ملک تو گذشتہ دو دہائیوں سے فاقہ مستی میں اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں نئی صدی کے آغاز پر تھا ،یہ جو تبدیلی سب کی ’ڈمری‘ ٹائٹ کرنے نکلی ہوئی ہے اس سے فاقہ مستی کا کوئی نیاء رنگ پیدا ہوگا یا نہیں ،’ اس پر غور اور تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ، کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے اندر سڑک ہی کو ہر مسلے کے حل کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے ،جبکہ اس طرح کے ایشوز ہر ملک اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں موجود ہیں ، تبدیلی‘کے چار سال سب ہی نے بھگتے ہیں ،اس وقت فاقہ مستی کس مقام پر تھی ؟ جب پوچھا جائے تواعدادوشمار میں سے صرف چھ فی صد گروتھ ریٹ کے عرق نکال کر پلایا جاتا ہے ،یہ عدد کسی فریب سے کم نہیں ہے ،2018 ء سے 2022کے درمیان ملک کے ذمہ قرضوں کی ادائیگی رقم کا حجم بڑھتا ہی رہا ہے ،2022ء میںجب ملک کی اکنامک مینجمنٹ کرنے والے در بدر ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف چار سال کی فاقہ مستی تھی،اپریل سے اکتوبر تک کوئی ایسا معاشی یو ٹرن نہیں ہوا ہے جس نے اس طرح کی معاشی صورت حال پیدا کی ہو ،صرف ایک بڑا سیلاب آیاجس نے پہلے سے موجود ابتری کو فزوں تر کیا ہے ،ہر ذی شعور کوعلم ہے کہ ’ تبدیلی‘ جی ٹی روڈ پر کیوں ہے ، اس کی ایک وجہ ہے ،جس ملک میں پل کی خبر نہیں ہوتی اس میں 2028 میں فیتے کاٹنے کے منصوبے ابھی سے بنا لئے جائیں تو کس کا قصور ہے،ایک بات تسلسل سے کان میں پڑتی ہے کہ فلاں فلاں سیکٹر بڑی ترقی کر رہا تھا ،ترسیلات بہت ہو رہی تھیں ،فلاں فلاں سیکٹر میں تیزی آنے کہ وجہ سے ہی معیشت اوور ہیٹ ہوئی ،80ارب ڈالر کی درآمدات نے وہ ستم ڈھایا ہے کہ اس کا اثر اب تک سہہ رہے ہیں ،بلکہ ملک کے ڈیفالٹ کے خطرے میں اس کا ہاتھ بڑا ہے ،نئے انتخابات کی کہانی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ،جب معیاد میں دس ماہ باقی ہو ں تو تاریخ کے لئے کوئی توانائی ضائع نہیں کرتا ،اس کی اصل وجہ سامنے آ چکی ہے اور اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے کہ کیسے کاروباری دوست کو پیغام دے کر بھیجا گیا ،غالبا یہ وہی دوست ہو سکتا ہے جو پہلے ’’سب پر بھاری‘‘ کے پاس ارسال کیا گیا تھا ،عجب ہے کہ دونوں بار ’’ناں‘ ہی ہوئی ،اب بھی کسی کو اگر کوئی شک ہے کہ اصل وہ نہیں ہوتا جو پبلک کو بتایا جا رہا ہے ،اصل وہ ہے جو کمرے میں بیان کیا جاتا ہے ،باقی جن سے گلہ ہے وہ خود سمجھ دار ہیں اپنا معاملہ نبٹا لیں گے ،خاک نشیں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اعتدال کے راستے کو نہ چھوڑا جائے ،اور خطرے کی نشاندہی بھی کر دی جائے ، اس وقت ملک تین بہت اہم معاملات میں مصروف کار ہے ،دنیا سے تعلقات کو بحال کرنے کا عمل جاری ہے ،گلف اور ویسٹ کے ساتھ مختلف سطحوں پر بات چیت ہو رہی ہے ،سی پیک میں ایک نئی کروٹ پیدا ہو ر ہے ،ایم ایل ون اور کے سی آر کے منصوبے شروع ہونے جا ر ہے ہیں ،پیرس میں ڈونرز کانفرنس ہونے والی ہے ،بہت سی اور چیزیں بھی ہیں ،اگر ان کو بیک وقت سامنے رکھ کر عدم استحکام کا سوچا جائے اور مان لیا جائے اگلے تین سے چار ماہ میں ہم ایک بار پھر’ اپریل2022ء ‘سے جڑنے والے ہیں تو یہ دو آپشن بیک وقت نہیں ہو سکتے ،سیاست اور سفارت کی سمجھ رکھنے والے اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں،اگر اشارہ سمجھ آ گیا ہو تو خاکسار کہہ سکتا ہے کہ جی ٹی روڈ ’پی ٹی ‘روڈ سے آگے کا رول نہیں ادا کر سکے گی ،اس کی ٹائمنگ ممکن ہے کہ کچھ سلوٹیں پیدا کر دے مگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ پیدا نہیں ہو سکے گا ،افسو س اس بات کا ہوتا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں متانت اور تدبر پیدا نہیں ہو سکا ،ذاتی مفادات اور ذاتی اپروچ کو سیاست میںاستعمال کرنا ایک ایشو ہے جس کی وجہ سے ہمیشہ تنازعات جنم لیتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے بہت سنگین ہو جاتے ہیں،خاک نشین یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت جو ایشو چل رہا ہے اس میں جو کام کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے انتخابات ،انتقال اقتدار یا اس کے بعد ساتھ چلنے والے امور کے حوالے سے کو ئی خدشات ہیں تو ان کو دور کر دیا جائے اوریقین پیدا کیا جائے کہ اصل مقصد ملک کو معاشی طور پر مستحکم رکھناہے ،اور اس کے لئے ہر قدم اٹھایا جا سکتا ہے ،یہ وہ پیغام ہے جس سے معاملات درست سمت میں جا سکتے ہیں،باقی روڈ پر واقعات ہوتے ہیں اور پھر خرابی بڑھا کر ختم بھی ہو جاتے ہیں،اس پر منتطمین کو غور کر لینا چاہئے ،اب بھی اس کا وقت ہے ،دریں اثنالانگ مارچ میں ایک خاتون رپورٹر کے جا ں بحق ہونے کاسانحہ پیش آیا ہے ،جو بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے ،اس طرح کے حالات میں روپورٹنگ بہت چیلجنگ ہوا کرتی ہے ،اس کے لئے تربیت دی ہوتی ہے،اور اس کے خاص طریقے ہوتے ہیں،مگر ملک میں ایسے طریقوں پر عمل کا رواج بہت ہی کم ہے ،اور نہ اس کے لئے وسائل موجود ہیں ،اس بارے میں سوچنا چاہئے،اللہ تعالی مرحومہ کو جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے ۔
بار بار کی ناں!!
Nov 01, 2022