ہم نے پچھلے 12 سال کے دوران ناروے اسکولوں، لندن کے 94 سالہ سائنس میوزیم اور پچھلے کچھ سالوں سے اسکردو سے لاڑکانہ تک پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں سائنس پڑھائی ہے۔ان پچھلے 5 سال میں پاکستان بھر میں میرے کام میں، اگر ایک چیز سب سے واضح ہو کر سامنے آئی ہے، تو وہ سائنس کے ساتھ روز مرہ کی زندگی کو منسلک کرنے کی اہمیت ہے۔اس بات کی اہمیت مجھ پر اس وقت عیاں ہوئی جب کورونا کی وباء کے دوران اسکول طویل مدت کے لیے بند ہو گئے۔ ہمیں بچوں، انکے خاندانوں، اساتذہ اور اسکولوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنیکے لیے نئے طریقے درکار تھے اور یہ بالکل آسان کام نہ تھا۔بالآخر ہم نے اپنے پارٹنر اسکولوں اور طلباء کے ساتھ ڈیجیٹل ذرائع سے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔لاہور اور کراچی کے اسکولوں میں ڈیجیٹل ذرائع سے کام کرنا اتنا مشکل نہ تھا لیکن بلوچستان میں صورتِحال بہت مختلف تھی۔ یہاں، میں خضدار کے لڑکیوں کے ایک اسکول کا حوالہ دینا چاہوں گی جہاں نہ صرف خواتین اساتذہ کی ڈیجیٹل خواندگی محدود تھی بلکہ انکو اہل خانہ کی طرف سے اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اسکول کے اساتذہ سے رابطہ نہیں کر سکتے تھے جو طلباء تک پہنچنے کا ہمارا واحد ذریعہ تھے۔ یہ مسئلہ حل طلب ہی رہتا اگر ہم سمیرا محبوب جیسی کمیونٹی لیڈر کے ساتھ کام نہ کر رہے ہوتے۔ جنہوں نے گھر گھر جا کر اِن ٹیچروں کے اہل خانہ سے بات کی اور خواتین اساتذہ کی انٹرنیٹ تک رسائی یقینی بنائی۔ اس طرح ہم نے وباء کے دوران خضدار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ، 'کل کے سائنسدان' نامی پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس پروگرام میں قابل ذکر خواتین سائنسدانوں کی زندگیوں اور دلچسپ سوالات پر مبنی کہانیاں شامل تھیں جو بچوں کے تجسس کو پروان چڑھانے کے نظریے سے ترتیب دی گئی تھیں۔ خواتین سائنسدانوں کی کہانیوں نے طالب علموں اور ان کے اساتذہ کو پاکستان سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی ان قابل ذکر خواتین کی کاوشوں سے متعارف کروایا جنہوں نے صنفی رکاوٹوں کے باوجود کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ کو تشکیل دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو سال میں سائنس دانوں اور سائنسی مظاہر پر مبنی کہانیوں کی یہ لائبریری کْل 120 تک پہنچ گئی۔ ان کہانیوں کو اردو اور انگریزی میں اسکرپٹ کیا گیا، اور ان کے پوڈ کاسٹ بھی ریکارڈ کیے گئے تاکہ اساتذہ انکو وباء کے دوران تدریس کے لیے استعمال کر سکیں۔ ان ڈیجیٹل اثاثوں کی فراہمی نے یہ بھی یقینی بنایا کہ پروگرام کے ختم ہونے کے بعد بھی اساتذہ اپنے طور پر بامعنی سائنس کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے پوری طرح سے لیس ہوں۔
اسی دوران ہم نے گل رْخ کے کردار کو بھی تشکیل دیا جو پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک 10 سالہ سائنس کی شوقین ایسی لڑکی ہے جو کہ عام اشیاء کی مدد سے سائنس کے تجربات کرتی ہے۔ سمیرا اور اس کے اسکول کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ایک سال بعد، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے تدریسی ماڈل نے ان کے اسکول میں سائنس کی تعلیم کو کم بجٹ میں بہتر کرنے میں مدد دی ہے۔ اب ان کے پاس ایسے اوزار، مہارتیں اور تدریسی وسائل ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے طلبائ میں سائنس کی مضبوط شناخت بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ اس سال ہم وفاقی وزارتِ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے اسٹیم پاکستان پراجیکٹ کے ساتھ منسلک ہوئے۔ اس پروگرام کے ذریعے، ہم نے اسلام آباد کے دس سرکاری اسکولوں میں عام اشیاء کے ذریعے سائنس پڑھانے کے اپنے ماڈل کو متعارف کروایا۔ اگرچہ، یہ پراجیکٹ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن ابتدائی مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ طلباء میں سائنس اور ریاضی کے مضامین میں دلچسپی میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں اس نئے تدریسی طریقہ کار کو متعارف کروانے سے جدت آئے گی ۔