اتنے مقبول لیڈر ہو تو اپنے زور بازو پر یقین رکھو اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ پالش کرنے کبھی بیک ڈور اور کبھی راتوں کو چھپ چھپ کے ملنے کا کیا مقصد ہے ؟لانگ مارچ آزادی کا جہاد ہے یا الیکشن کی تاریخ لینے کا تماشہ ہے ؟ جو رویہ اپنا رکھا ہے اس سے الیکشن کی تاریخ ملنے کی امید نہیں۔ تمام تاش اور تیر چلا لئے اب آخری لانگ مارچ کا ڈراوا بھی نکال ہی لو۔ ٹکر کے سارے صحافی تو مرشد نے ملک سے بھگا دئیے ہیں ،ہومیوپیتھک مارچ بیساکھیوں کی راہ تک رہا ہے ، بیچاری صحافی خاتون صدف مرشد کے انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئی، باقی اللہ ہدایت دے۔مقبولیت کا نشہ اس قدر کہ عوام میں فوج سے نفرت پیدا کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔لانگ مارچ کا آغاز ہی آئی ایس آئی کے چیف کو للکارسے کیا۔ بھارت میں جشن کا سماں تھا کہ آئی ایس آئی کی جو ہتک ہم نہ کر سکے خان صاحب نے کارنامہ کر دکھایا۔خان تیری مقبولیت کو بیساکھیوں کی محتاجی آخر کیوں کر ؟آرمی چیف کو ہتک کا نشانہ بنانا فوج کے وقار پر حملہ ہوتا ہے۔فوج کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ آپ فوج کے ایک سپاہی سے بھی پوچھ لیں وہ آرمی چیف کے خلاف منفی پروپیگنڈا پوری فوج کی توہین سمجھتا ہے۔فوج میں آرمی چیف کی حیثیت صرف کمانڈر اور سپہ سالار کی ہوتی ہے۔فوج کے اندرکوئی اچھا برا آرمی چیف نہیں ہوتا ،ایک نظام کے تحت لوگ آتے جاتے ہیں۔ قطع نظر کہ فوج کی حکومت اچھی ہوتی ہے یا بری عوام نے سابق جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ترقی کے منصوبوں کو بہت سراہا۔سابق جنرل ضیا الحق کے دور حکومت کو بھی دائیں بازو والوں اور مذہبی حلقوں نے پذیرائی بخشی جبکہ لبرل طبقے نے سابق جنرل پرویزمشرف کے دور حکمرانی کو پسند کیا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست کی وجہ سے فوجی ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ فوج کو بدنام کرنے سے پاکستان کا نقصان ہو گا۔ دشمنوں کو فائدہ ہو گا۔ فوج مخالف پروپیگنڈہ ملک دشمنی ہے۔جمہوریت کی آڑ میں عوام کو فوج کے خلاف گمراہ کیا جارہا ہے۔ فوج کی قربانیوں جذبے اور حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان کو چاروں اطراف سے بھوکے بھیڑیوں کا سامنا ہے جو پاکستان کو معذور ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک ہے تو سیاست اور جمہوریت ہے۔
نواز شریف کے خلاف فوج کے اندرغم و غصہ پایا جاتا تھا لیکن عمران خان نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔بھارت لڈیاں ڈال رہا ہے کہ جو کام ہم بھی نہ کر سکے عمران خان نے کر دکھایا۔سابق جنرل ضیا الحق کی سیاست میں مداخلت اور روحانی بیٹوں الطاف حسین اور نواز شریف کی دریافت پر فوج کے اندر نا پسندیدگی پائی جاتی تھی۔ضیا دور کے بعد نام نہاد جمہوریت کا پہیہ ذرا آگے بڑھا تو جنرل ضیا کی روحانی دریافت نواز شریف نے حسب توقع اس وقت کے آرمی چیف سے متّھا لگا لیا۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے بھی سیاست کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور طیارہ کیس کی آڑ میں حکومت پر قبضہ کر لیا جسے عرف عام میں شب خون مارنا کہا جاتا ہے۔لیکن 2008ءمیں جنرل کیانی نے فوجی افسران کو حکم دیا کے وہ سیاست دانوں کے ساتھ رابطے نہ رکھیں۔ جنرل کیانی نے پاکستان کے تمام حکومتی اور سول محکموں سے فوجی افسران کی واپسی کا حکم دے دیا اور صدر مشرف کے ناقدین نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جن کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ سیاست میں فوج کی دخل اندازی نہ ہو۔24 جولائی 2010ءکو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کی ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی۔2013ءکو وزیر اعظم نواز شریف نے راحیل شریف کو فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا۔راحیل شریف بھی سیاست میں عدم دلچسپی رکھتے تھے۔جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور قابلیت کی ساری دنیا معترف ہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی کوششیں انتہائی کامیاب رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی طرف سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے قائم کئے گئے اتحاد کی قیادت کے لئے ا ن کا انتخاب کیا گیا۔راحیل شریف نے جس وقت پاکستانی آرمی کی کمان سنبھالی تو ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر تھی۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن قوتوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کیں۔ اس سے امن و امان کی صورت حال میں بہتری ہونے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے ابھرے۔ حالیہ ایران سعودیہ کشیدگی میں وہ بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان میں کشیدگی کم کرنے کے لیے دورے پر تھے۔راحیل شریف ایک آرمی چیف کی حیثیت سے 29 نومبر 2016ءتک خدمات انجام دے کرپاک فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کر گئے۔ جنرل باجوہ کے ساتھیوں کایہ کہنا ہے کہ انہیں توجہ حاصل کرنے کا قطعی کوئی شوق نہیں اور وہ سیاست سے دور رہ کر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ انتہائی پیشہ ور افسر ہیں اورایک نرم دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی غیر جانبدار فوجی افسر ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو زرداری حکومت نے ایکس ٹینشن دی۔ جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنا دئیے گئے لیکن مشرف کی اور دیگر جرنیلوں کی طرح وہ بھی نواز شریف کو پسند نہیں تھے۔ اسٹبلشمنٹ نے جس قدر عمران خان سے تعاون کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی مگر عمران خان نا اہل احسان فراموش ثابت ہوئے۔اگر فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو سیاستدان فوج میں مداخلت کرتے ہیں۔سیاستدان کیوں اپنی مرضی کی پالیسیاں فوج پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ نواز شریف نے فوج کے ساتھ آبیل مجھے مار کے مترادف رویہ رکھا۔مسلم لیگ نواز میں اکثریت اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ پاکستان اور فوج لازم و ملزوم ہیں۔ فوج مخالف بیانیہ پر مسلم لیگ ن تقسیم ہو گئی تھی۔آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نواز شریف کی ہر کمزوری اور کوتاہی کو نظر انداز اور برداشت کرتے رہے اور عمران خان کی نکمی حکومت بھی تحمل سے برداشت کرتے رہے مگر عمران خان نے بھی ضرورت سے زیادہ ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی۔ نہ نواز شریف کو مدت پوری کرنے دی نہ خود مدت پوری کر سکے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ لانگ مارچ کرو بھلے خود سوزی کرو۔ اسٹیبلشمنٹ اب سیاست میں مداخلت سے باز آئی۔
مقبولیت کوبیساکھیوں کی محتاجی؟
Nov 01, 2022