میرپورخاص(بیورورپورٹ/رےاض الدےن) آئندہ سیلاب سے بچا¶ اور قدرتی ندی نالوں کی بحالی کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق میرپورخاص میں 5 اضلاع کے مکینوں، آبی ماہرین، بارش کے متاثرین اور وکلاءکی مشترکہ کانفرنس ”قدرتی بہا¶، رکاوٹیں اور حل“ کے عنوان سے منعقد ہوئی جس میں ماہر آبپاشی غلام مصطفیٰ اجن نے نقشوں اور نمبروں پر مبنی تفصیل سے بریفنگ دیت ہوئے کہا کہ پورے ملک کی آبی گزرگاہیں سندھ سے گزرتی ہیں جو کہ ہمارے لئے نقصان دہ ہے انہوں نے کہا کہ سندھ میں 2011 جتنی بارشیں سو سال بعد ہوئیں لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس عرصے میں بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں ہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ میرپورخاص سمیت مختلف علاقوں میں 12 سال میں 4 سیلاب آئے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سندھ کا 87 فیصد پانی کھارا اور صرف 13 فیصد پانی میٹھا ہے بریفنگ میں دستاویزی شواہد کی بنیاد پر بتایا گیا کہ 1932 میں انگریزوں نے تجویز دی تھی کہ سندھ میں نکاسی آب کا نظام لازمی بنایا جائے لیکن اس کو سیاست کی نظر کرنے کی وجہ سے انگریزوں کے نکاسی آب کے نظام میں زیادہ دلچسپی نہیں لی اور آزادی کے بعد ہم نے زیادہ توجہ نہیں دی انہوں نے کہا کہ سندھ میں ڈیڑھ کروڑ ایکڑ اراضی کے لیے نکاسی آب کا نظام بنایا جانا تھا لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم صرف 60 لاکھ ایکڑ اراضی کے لئے نکاسی آب کا نظام بنا سکے لیکن وہ بھی ناکارہ ہو چکا ہے بریفنگ میں بتایا گیا کہ میرپورخاص ڈویژن میں 2 بڑی قدرتی آبی گزرگاہیں ہیں دریائے سندھ کے بائیں جانب 18 بڑے قدرتی آبی گزرگاہیں ہیں ہیں جن میں گھوٹکی، سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، نوشاہ شامل ہیں جو کہ بند ہیں انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹھری میرواہ، پکا چانگ جیسے علاقے پانی کے قدرتی چینلز بلاک ہونے کی وجہ سے زیر آب ہیں اس لئے قدرتی چینلز بلاک ہونے کا مسئلہ صرف میرپورخاص ڈویژن کا نہیں۔غلام مصطفیٰ اجن نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ سجاول، بدین اور تھر کی بہت سی جھیلیں قدرتی پانی کی ندیوں پر آباد ہوتی تھیں جو کبھی رامسر سائیٹس کے مقامات تھے لیکن اب یہ تمام جھیلیں تباہ ہو چکی ہیں واجد لغاری، شیر محمد سولنگی، حاجی علی نواز دلوانی، انور نوحانی، ایاز کھوسو، میر اعجاز ٹالپر، پروفیسر یوسف راجپوت، نزاکت میرجت، عباس کھوسو، شوکت راہموں ایڈووکیٹ، مولا بخش راہو ایڈووکیٹ، میر محمد نوہڑی، اسد شر اور دیگر نے کہا کہ ہمیں اپنا مقدمہ سائنسی بنیادوں پر اعداد و شمار سے لڑنا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب میں جتنا خرچ ڈیموں اور بندوں کی تعمیر، امدادی سرگرمیوں اور دیگر کاموں پر ہوا ہے اگر اس کا آدھا خرچ قدرتی ندی نالوں کی بحالی پر خرچ کیا جاتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ان کا کہنا تھا کہ ایریگیشن ایکٹ 62C ہے جس کے تحت قدرتی آبی گزر گاہوں کی تمام لیز، گرانٹس اور دیگر مراعات منسوخ ہیں لیکن محکمہ آبپاشی اور ریونیو کی نااہلی اور ملی بھگت سے ان قبضوں کو نہیں ہٹایا جاتا ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے قدرتی آبی گزرگاہوں کے آخری علاقوں سے تجاوزات ہٹائی جائیں جہاں سے پانی گزر کر سمندر میں گرتا ہے اور پھر پھر دیگر علاقوں سے تجاوزات کو ہٹایا جائے اگر آخری علاقوں سے تجاوزات کو ہٹایا نہ گیا اور چھوڑ دیا گیا تو یہ علاقے دوبارہ ڈوب جائیں گے ۔
نکاسی کا نظام
ملک کی آبی گذرگاہیں سندھ سے گذرتی ہیں‘ موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ہم نے تیاریاں نہیں کی ہیں‘ تجاوزات نے ندی نالوں کو بند کردیا
Nov 01, 2022