مولانا عبدالکلام آزاد جیّد عالم دین تھے۔ ان کی علمیت پر تو دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ نیت پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سیاسی سوچ غلط تھی۔ قائد اعظم انہیں Show boy of congress کہتے تھے۔ کانگرس کے صدر رہے مگر آزادی کے بعد ہندوئوں نے انہیں تعلیم کی وزارت پر ٹرخا دیا۔ اگر ان کی کتاب India wins Freedom کا مطالعہ کیا جائے تو بین السطور ایک یہی تاثر اُبھرتا ہے اور تاسف کے سائے انکی شخصیت پر صاف پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک طویل جدوجہد کے بعد 14 اگست 1947ء کو آزادی تو مل گئی مگر مسلمانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ متعصب ہندوئوں نے سکھوں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ایک دریائے خون تھا جسے عبور کرنا پڑا۔ آزادی کی راہ میں ان گنت لوگ سربریدہ ہوئے۔ کئی جواں جسم خاک اور خون میں غلطاں ہوئے۔ عصمتیں لٹیں۔ بوڑھے بابوں کی کمریں کمان بنیں۔ لُٹ لُٹا کر بچے کھچے جو لوگ پاکستان پہنچے ان کے پاس داستانِ غم اور سجدہِ شکر کے سوا کچھ اثاثہ نہ تھا۔
آزادی کے بعد قائد اعظم پہلے گورنر جنرل بنے۔ وہ بیماری جسے انہوں نے مقدس راز کی طرح چھپا رکھا تھا، بالآخر جاں لیوا ثابت ہوئی اور وہ 1948ء میں رحلت فرما گئے۔ کچھ عرصہ بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تقریر کے دوران شہید کر دیا گیا۔ اسکے ہرچہ بارا بار ہو گیا۔ میوزیکل چیرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ انڈین اکائونٹس سروس کے ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ فالج نے اس کی بچی کھچی صلاحیتوں کو بھی روند ڈالا۔ اس نے قانون کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کے شب و روز اور طرزِ عمل کا دلچسپ نقشہ کھینچا ہے۔ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی حکمران اس قدر برہنہ گفتار نہیں گزرا۔ اس شغل میں وہ کسی کو معاف نہ کرتا۔ ایوب خان تک کو نہ بخشا۔ وہ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب ہم اس کی بات نہ مان کر کمرے سے نکلے تو :
He was emiting volley of Abuses
اس کا جانشین اسکندر مرزا فاتر العقل تو نہ تھا لیکن ضرورت سے زیادہ چالاک نکلا۔ اس کا تعلق بھی انڈین سول سروس سے تھا۔ جب اس نے اقتدار ہاتھ سے جاتے دیکھا تو مارشل لاء لگا دیا۔ ایوان صدر سے تو اس نے نکلنا ہی تھا ، شاید اس قدر بے عزت ہو کر نہ نکلتا۔
جنرل ایوب دس سال تک سب طبل و علم کا مالک و مختار رہا۔ گو ملک میں آمریت تھی لیکن لوگ خوش حال تھے۔ ملائیشیا ، سنگاپور، کوریا، تھائی لینڈ، ہم سے مضبوط معیشت کے گُر سیکھنے آتے تھے۔ اس سے بھی بالآخر متلون مزاج قوم اُکتا گئی۔ جنرل یحییٰ خان نے مارشل لا لگا کر ایوب خان کی جگہ سنبھال لی۔
یحییٰ خان کا دور بدترین تھا۔ ملک دولخت ہو گیا۔ محمد شاہ رنگیلا تو شراب میں ’’ایں دفتر بے معنی‘‘ ڈبوتا تھا۔ یہ خود ہی غرق ہو گیا۔ ایوب خان ’’احسان فراموش‘‘ قوم سے اس سے بدتر بدلہ نہیں لے سکتا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو زیرک، سمارٹ اور معاملہ فہم حکمران تھا اگر حد سے بڑھتی ہوئی خوداعتمادی (Hubris) کا شکار نہ ہوتا تو ایک طویل عرصہ تک حکمرانی کر سکتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری منقسم مزاجی تھی۔ ہارورڈ اور کیمبرج سے پڑھے ہوئے شخص کے اندر سے سلامی وڈیرا کبھی باہر نہ نکل سکا۔ اپنی ہی پارٹی کے منحرف لوگوں کو شکنجے میں کسنے کے لیے اس نے زندانِ نازیاں کی طرز پر دلائی کیمپ بنایا…اب تفصیل میں کیا جانا ہے کئی لوگ انتقام کی آگ میں بھسم ہوئے۔ تاریخ کا سبق ہے Those who tarce yp the sword shall be perished by sword
نواب محمد ا حمد خان کے قتل کی پاداش میں سزائے موت تجویز ہوئی۔ مقدمے میں قانون کے تقاضے پورے نہ کئے گئے۔
بعد کی سیاست ایک تثلیث کے گرد گھومتی رہی۔ میاں نواز شریف ، محترمہ بے نظیر اور عمران خان، میاں صاحب تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ محترمہ دو بار اور خان صاحب کو ایک موقعہ ملا۔ کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ اس کی وجہ ہمہ مقتدر قوتوں سے ٹکرائو تھا۔ قصور کس کا ہے؟ اس سے بحث نہیں۔ یہ بات ہم مورخین کے لیے چھوڑتے ہیں۔ ہمیں صرف معروضی حالات کو دیکھنا ہے۔ طاقت کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ یہ کسی ضابطے کی پابند نہیں ہوتی۔ اپنی رائیں خود متعین اور ہموار کرتی ہے۔ جس حکمران نے بھی اس حقیقت سے روگردانی کی اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ دراصل جب ہمارے سیاست دان عنانِ حکومت سنبھالتے ہیں تو طاقت کے نشے میں ایسی ناجوازیاں کر بیٹھتے ہیں کہ بسااوقات مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔
(ختم شد)