یہ بے حد بودی اور کمزوردلیل ہے کہ توشہ خانے سے بہرہ مند ہونے والا اکیلا عمران خان نہیں بلکہ سابق صدر زرداری،سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور تین بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے بھی توشہ خانے سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔مسئلہ یہ نہیں کہ توشہ خانے پر کس نے ہاتھ صاف کیا اور کس نے نہیں کیا بلکہ زیر غور نقطہ یہ تھا جو اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک ریفرنس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو ارسال کیا ۔شکایت یہ تھی کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم توشہ خانے کے تحائف کو خریدا ہے اور مارکیٹ میں جا کر بیچ دیا ہے لیکن انہیں اس خریدو فروخت سے جو آمدنی حاصل ہوئی اسے الیکشن کمیشن کے سامنے ڈکلیئر نہیں کیا گیا ۔الیکشن کمیشن کے تمام ارکان نے متفقہ فیصلہ کیا کہ عمران خان نے اپنی آمدنی کو چھپایا ہے اور الیکشن کمیشن میں داخل کیے گئے گوشواروں میں جھوٹ بولاہے ۔اس جرم کی سزا کے طور پر الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا اور قومی اسمبلی سے بھی ڈی سیٹ کردیا ۔اس فیصلے کا جونہی اعلان ہوا پورے ملک میں عمران خان کے مداحوں نے جلوس نکالے ،ٹریفک بلاک کی ،ٹائر جلائے اور عام آدمی کا سکھ چین برباد کر دیا ۔عجب ستم ظریفی ہے کہ عمران خان دوسروں کا احتساب توہر وقت کرتے ہیں لیکن ان کا پہلی بار احتساب ہوا اور انہیں اس کی سزا سنائی گئی تو یہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے ۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ قانون انہیں اپنی گرفت میں نہیں لے سکتا ۔مگر وہ بھول گئے کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں سینکڑوں لوگوں کو احتساب کے نام پر سیف ہائوسوں اور جیلوں میں بند کیا ۔اپوزیشن کا کوئی بھی سرکردہ رہنما ان کی دست برد سے محروم نہ رہا ۔عمران خان اور تحریک انصاف کے لوگ بھول گئے کہ میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے کھڑے کھڑے اس لیے فارغ کیا گیا کہ انہوں نے بھی عمران خان سے ملتی جلتی حرکت کی تھی اور اپنے بیٹے سے قابل وصول تنخواہ کا ذکر گوشواروں میں چھپا لیا ۔میاں نواز شریف کو سزا ہوئی تو انہوں نے جی ٹی روڈ پر ایک جلوس ضرور نکالا مگر ان کے چاہنے والوں نے پورے ملک میں ایک گملہ تک نہ توڑا ۔ نا اہلی کی سزا عمران خان اور نواز شریف سے پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی سنائی گئی ۔انہیں تا برخاست عدالت قید کی سزا بھی سنائی گئی ۔یہ الگ بات ہے کہ یہ قید صرف چند لمحوں کے لیے تھی ۔مگر ان سے وزارت عظمیٰ چھین لی گئی تھی ۔بارہ اکتوبر 1999کو میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا جس کا منفی رد عمل تو دیکھنے میں نہیں آیا لیکن ان کے مخالفین نے مٹھائیاں اور حلوے بانٹے اور آتش بازی کرکے اپنے جذبات کو تسکین پہنچائی۔اس سے بھی پہلے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو مرتبہ حکومت توڑی گئی اور نواز شریف کی حکومت کا بھی دھڑن تختہ کیا گیا مگر پورے ملک میں امن و سکون قائم رہا اور کوئی شخص نعرے بازی کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں نکلا۔یہ بات عمران خان اور ان کے مداحوں کے سوچنے کی ہے کہ وہ احتساب سے اپنے آپ کو کس طرح بالاتر سمجھتے ہیں ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ابھی تو عمران خان کے خلاف کھاتا کھلا ہے اور کئی دیگر معاملات میں ان کا احتساب ہونا باقی ہے جس سے بچنے کے لیے عمران خان اس وقت جلسے کرتے رہے جب اس ملک کے تین کروڑ لوگ سیلاب کی زد میں تھے ۔اور یہ سیلاب ان دو صوبوں میں زیادہ تباہ کن ثابت ہوا جہاں عمران خان کی پارٹی بر سر اقتدار ہے ۔خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے اور پنجاب میں بھی اسے چوتھا سال گزر رہا ہے ،ان دونوں صوبوں میں سیلاب زدگان کی داد رسی کی سو فیصد ذمہ داری جناب عمران خان اور ان کی صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے سیلاب کی مصیبت کے مارے ہوئوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔اب احتساب کا دائرہ عمران خان اور ان کے بعض ساتھیوں کے گرد تنگ ہو رہا ہے تو انہوں نے لانگ مارچ کی کال دے دی ہے ۔لانگ مارچ وہ اس سے پہلے بھی کر چکے ہیں جو پشاور سے اسلام آباد تک کیا گیا مگر اس میں عمران خان پوری پاور شو نہ کر سکے ۔اب انہوں نے لانگ مارچ کے لیے پنجاب کا انتخاب کیا ہے وہ لاہور سے جی ٹی روڈ کے راستے کوئی ایک ہفتے میں اسلام آباد پہنچیں گے اور وہاں جلسہ کریں گے یا دھرنا دیں گے ۔عمران خان جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے شوق میں شروع سے مبتلا ہیں ۔انہوں نے اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں کئی مہینوں تک دھرنا دینے کا شوق پورا کیا ۔اس دھرنے میں انہوں نے ریڈ زون کا مکمل محاصرہ کیا ،سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہائوس کی عمارتوں سے کھلواڑ کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کرکے اس کی نشر یات عارضی طور پر بند کروا دیں ۔کہا جاتا ہے کہ عمران خان بہت لاڈلے ہیں اور انہیں قانون کی گرفت میں نہیں لیا جا سکتا۔عمران خان نے اپنی حکومت خود توڑی ،اپنی جگہ نگران وزیر اعظم کے نام کا بھی اعلان کردیا اور نئے الیکشنوں کا بھی بگل بجا دیا ۔مگر عدلیہ نے بروقت کارروائی کرکے ان کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دے دیا ۔پارلیمنٹ بحال کردی گئی ۔نئے الیکشنوں کا اعلان بھی ہوا ہو گیا ۔اور کیئر ٹیکر وزیر اعظم لگانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔سیانے کہتے ہیں کہ قدرت کا عمل اپنی جگہ پر جاری رہتا ہے اور ہر انسان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی کچھ عمران خان کے ساتھ بھی ہوا ہے ،وہ ہر کسی کو چور چور کہتے تھے اب الیکشن کمیشن نے عمران خان کی چوری کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ عمران خان چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور انہیں اس کی سزا بھی سنا دی گئی ہے ۔اب وہ جتنے مرضی شوشے چھوڑیں اور جتنی مرضی غوغا آرائی کرلیں ان کے دامن پر ایک دھبا تو لگ چکا ہے اور یہ دھبا لانگ مارچ سے تو نہیں دھل سکتا اور نہ ہی مکافات عمل کا سلسلہ رک سکتا ہے ۔