عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل وائوڈا نے نہ جانے کس پس منظر میں ہنگامی پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عمران خان کے لانگ مارچ میں خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں دیکھ رہے ہیں۔ وہ خود تو اس ا نتہائی حساس نوعیت کے انکشاف پر اپنی پارٹی قیادت کی جانب سے گردن زدنی ٹھہرے اور انہیں ماہئی بے آب کا منظر بنا کر کھینچتے ہوئے پارٹی سے نکال دیا گیا مگر ان کا فرمایا ہوا تو مستند ٹھہرتا نظر آ رہا ہے۔ عمران خان نے جمعتہ المبارک کے دن سے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کرنے کا اعلان بھی اچانک کیا جبکہ اس سے دو روز قبل کینیا میں معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف کے قتل کا سانحہ رونما ہو چکا تھا۔ ارشد شریف کی میت پاکستان آئی تو عمران خان اپنے لانگ مارچ کا راستہ پکڑ چکے تھے جس سے ان کے مخالف حلقوں کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ عمران خان کو اپنے لانگ مارچ میں ہمدردی کا عنصر شامل کرنے کے لئے درحقیقت کسی انسانی لاش کی ضرورت تھی جو ارشد شریف کی لاش کی صورت میں جیسے ہی دستیاب ہوئی، عمران خان نے گومگو میں پڑے اپنے لانگ مارچ کے منصوبے سے فٹافٹ مٹی جھاڑی اور اس کے آغازکا اعلان کر دیا۔ لانگ مارچ کے لئے ان کی یہ منصوبہ بندی کہ اسے رینگتے ہوئے اسلام آباد تک لے جایا جائے اور ہفتہ دس دن تک لاہور سے اسلام آباد تک جی ٹی روڈ پر اودھم مچائے رکھا جائے، افراتفری پھیلانے کے ایجنڈے کی ہی عکاس نظر آتی ہے چنانچہ جمعتہ المبارک کی سہ پہر لاہور سے چلنے والا لانگ مارچ دو روز تک لاہور سے متصل شہروں میں ہی الجھا رہا۔ رات کو لانگ مارچ نہ کرنے کا فیصلہ بھی اسے لمبا کھینچنے کے لئے کیا گیا جس سے خود خان صاحب کو لاہور واپس آ کرا ستراحت اور قیلولہ فرمانے کا موقع بھی ملتا رہا جبکہ ان کے اندھے عقیدت مندوں کو لانگ مارچ کے کچھوے کی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے والے سفر میں پیدل چلنے اور خجل خوار ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
اتوار کی شام کامونکی سے گوجرانوالہ کے پڑائو کی جانب بڑھتے اس لانگ مارچ کے دوران تین افسوسناک سانحات ہوئے، ایک سانحہ انڈر پاس پر بنی فائبر کی چھت کے لانگ مارچ کے شرکاء کا بوجھ برداشت نہ کرنے کے باعث ٹوٹ کر گرنے سے رونما ہوا جس کے نتیجہ میں لانگ مارچ کے ایک درجن کے قریب شرکاء زخمی ہوئے۔ اس سانحہ کے کچھ ہی دیر بعد لانگ مارچ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں میں باہمی جھڑپ ہوئی، کرسیاں چلیں اور لاتوں گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا چنانچہ اس ’’حادثے‘‘ میں بھی انسانی خون سے لانگ مارچ کی پیوند کاری ہو گئی۔ لانگ مارچ کے اسی رینگتے سفر کے دوران خانقاہ ڈوگراں میں تعینات پولیس کا ایک ڈرائیور کانسٹیبل اچانک دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا جسے عمران خان کے مخالف حلقے اس لانگ مارچ کے دوران لاشیں گرنے سے متعلق فیصل وائوڈا کے دعوے کے آغاز سے تعبیر کرتے نظر آئے اور پھر سادھوکی میں تو خود ہماری صحافتی کمیونٹی پر قیامت ٹوٹ پڑی، ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون رپورٹر صدف نعیم جو مکمل دیانتداری کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی بجاآوری کی مثال بن کر عمران خان کے انٹرویو کی ایک ’’ساٹ‘‘ حاصل کرنے کے لئے کنٹینر میں ان تک رسائی حاصل کرنے کی مسلسل تگ و دو میں تھی اور ڈیڑھ دو میل کا سفر اس نے کنٹینر کے ساتھ پیدل بھاگ کر طے کر لیا تھا مگر کنٹینر کے مخصوص گیٹ پر تعینات عمران خان کے سکیورٹی گارڈز نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔
اس دلخراش واقعہ کا جو آنکھوں دیکھا حال موقع پر موجود اس کے ساتھی رپورٹروں نے بیان کیا وہ انسانیت کو شرماتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے بقول صدف نعیم کو دوڑتے ، بھاگتے، تھکتے ہوئے بمشکل تمام کنٹینر کے گیٹ کی جانب بڑھنے کا موقع ملا اور اس نے گیٹ کے ہینڈل کو اپنے ہاتھ سے تھاما تو وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے رعونت کے ساتھ اسے پیچھے دھکیلا جس پر گیٹ کا ہینڈل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ سڑک کے درمیان ڈیوائیڈور سے ٹکرا کر کنٹینر کے پہیئے کے آگے آن گری اور چلتے کنٹینر کا پہیہ اس کی موت بن کر اس کا سر کچلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اتنے بھاری اور وزنی کنٹینر کے پہیئے کے نیچے کچلے جانے سے اس کے زندہ بچنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں رہا تھا مگر عینی شاہد رپورٹروں کے مطابق ان کے شور ڈالنے پر سکیورٹی گارڈز نے ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اور انہیں اس حادثے کی ویڈیو بنانے سے روکنے کے لئے ان پر پانی کی بوتلوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اگرچہ اس سانحہ کے بعد عمران خان نے لانگ مارچ کا اگلا مرحلہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور کنٹینر سے نیچے اتر کر شہید صدف کے ورثاء کے لئے ہمدردی کا بیان بھی جاری کیا مگر بے حسی کا عملی مظاہرہ یہ ہوا کہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں شہید ہونے والی اس خاتون صحافی کی نعش کی جائے وقوعہ پر بے حرمتی ہوتی رہی اور لانگ مارچ میں شریک پی ٹی آئی کے کسی لیڈر یا کارکن نے اس کی لاش کنٹینر کے نیچے سے نکالنے اور ہسپتال پہنچانے کی زحمت بھی گوارا نہ کی اور وہاں موجود سینئر صحافی قذافی بٹ کو تن تنہاء یہ فریضہ ادا کرنا پڑا جس نے صدف کی نعش گریہ زاری کرتے ہوئے کنٹینر کے نیچے سے نکالی اور اسے مریدکے ہسپتال تک لے جانے کا اہتمام کیا۔ صدف نعیم بلاشبہ انتہائی محنتی خاتون رپورٹر تھی جو کم وسائل کے باوجود ہمت ہارے بغیر ا پنی بیٹ کی ہر ذمہ داری نبھاتی نظر آتی تھی۔ وہ لانگ مارچ کے آغاز سے ہی اس کی کوریج کر رہی تھی اور اگلے روز بھی اپنے بچوں کے روکنے کے باوجود وہ جیسے تیسے سادھوکی پہنچ گئی اور اس پیشۂ پیغمبری میں اسے شہادت سے سرفراز ہونا پڑا۔
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اسے ناگہانی حادثہ قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی حالانکہ یہ واقعہ گارڈز کی بدتمیزی کے نتیجہ میں رونما ہوا ثابت ہو تو مجرموں کو کیفر کردار کو پہنچانے کا متقاضی ہے۔ اس سانحہ پر انگلیاں اٹھانے کی گنجائش تو خود پی ٹی آئی کے عہدے دار اور صوبائی وزیر اسلم اقبال نے اپنے پارٹی عہدے داروں کو صدف نعیم کے گھر لے جا کر اور اس کے شوہر سے ز بردستی یہ تحریر لکھوا کر نکالی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے اس لئے ہم کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ اگر کسی واقعہ کے بارے میں کسی کے دل میں چور نہ ہو تو وہ اس پر مٹی ڈالنے کا کوئی عذر کیوں تلاش کرے گا جبکہ اسلم اقبال نے مبینہ طور پر ایسا ہی کیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر اس سانحہ کے حوالے سے چار ویڈیو کلپس گردش کر رہی ہیں۔ ایک ویڈیو میں سانحہ سے کچھ لمحات قبل صدف نعیم بھاگتے ہوئے کنٹینر کی جانب بڑھتی لپکتی نظر آ رہی ہے۔ دوسری ویڈیو لانگ مارچ کے حوالے سے اپنی موت سے چند لمحات پہلے صدف کے جذبات کے اظہار پر مبنی ہے جس میں وہ لانگ مارچ کو شعبدہ بازی اور عوام کو خجل خوار کرنے سے تعبیر کر رہی ہے۔ اسی طرح ایک ویڈیو میں کنٹینر کے نیچے کچلی پڑی اس کی لاش نظر آ رہی ہے جبکہ چوتھی ویڈیو میں اسلم اقبال صدف کے شوہر سے زبردستی ایک کاغذ پر اس کے دستخط کراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہی کاغذ سوشل میڈیا پھیلایا گیا جس میں اس کے شوہر سے تحریر کرایا گیا کہ وہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرانا چاہتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اندھی نفرت و عقیدت کے غبار میں لپٹی ہماری سیاست میں شرف انسانیت کا ہی جنازہ اٹھا لیا گیا ہے۔ ایسے سانحات پر کوئی ہمدردی کا بول بھی بول دے تو اندھے عقیدت مند لٹھ لے کر اس کے بھی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے فیس بک اکائونٹ پر صدف نعیم کے ساتھ پیش آنے والے اس سانحہ پر اس سانحہ کے حادثاتی یا مجرمانہ ہونے کا سوال اٹھایا تو ’’عمر انڈو‘‘ سوچ والوں بشمول میری اپنی کمیونٹی کے شتر بے مہاروں نے میری جانب اپنے تنقیدی نشتروں کا رخ کر لیا۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا یہ رویہ یہاں اخلاقیات کا جنازہ ہی نہیں نکال رہا ،سوسائٹی کو قطعی غیر متوازن بھی بنا رہا ہے جس میں ہر برائی اور ہر خرابی کو اچھائی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو ایسے غیر متوازن معاشرے کا انجام بھی ہمارے لئے نوشتۂ دیوار ہونا چاہئے۔ عمران خان کا لانگ مارچ تہمتوں، للکاروں، دشنام طرازیوں اور دریدہ دینیوں کی بوچھاڑ کرتا ہوا کسی مخصوص حکمت عملی کے تحت کچھوے کی رفتار سے اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور، قاسم سوری اور اس قبیل کے دوسرے لیڈروں کی جانب سے مبینہ طور پر بھجوائے اسلحہ بردار پہلے ہی مورچہ بند ہیں اور علی امین یہ کہہ کر اس کی تصدیق بھی کر رہے ہیں کہ کوئی ہمیں مارنے آئے گا تو ہم اس کے گلے میں پھولوں کے ہار تو نہیں ڈالیں گے۔ ایسی دیدہ دلیری کے مظاہر و مناظر پہلے نہ کبھی دیکھے نہ سنے۔ خدا خیر ہی کرے اور فیصل وائوڈا کے دعویٰ کے عملی قالب میں ڈھلنے کی نوبت نہ آئے مگر ملک پر نحوست طاری ہونے کا ماحول تو بن گیا ہے۔ اس کے جو جو بھی ذمہ دار ہیں وہ اپنی کرنی کا بھگتیں گے ضرور۔
’’بامقصد‘‘ خونی مارچ کا آغاز ۔ خدا خیر کرے
Nov 01, 2022