مذاکرات کی افواہیں جھوٹی ہیں‘ کوئی آپشن نہیں بچا: عمران اسماعیل
اب مذاکرات کا ڈھول دونوں طرف سے پیٹا جا رہا ہے۔ ایک فریق کہتا ہے ہم نے کوئی مذاکرات نہیں کئے‘ کوئی مذاکرات نہیں کرنے۔ دوسرا کہتا ہے کہ مذاکرات کیلئے جو شرائط رکھی گئی ہیں‘ ان میں ایک منظور نہیں‘ دوسری الیکشن والی پربات چیت ہو سکتی ہے۔ اندرون خانہ یہ بات چل رہی ہے۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے اول و آخر سب کہتے ہیں بات چیت نہیں ہوئی۔ دوئم و سوئم البتہ کہہ رہے ہیں بات ہوئی مگر ان سے بھی اہم گواہی پی ٹی آئی کے حلیف چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب کی ہے ۔ لوگ ان کی بات پر زیادہ یقین کر رہے ہیں۔ وہ کھل کر بیک ڈور مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور تسلیم بھی کر رہے ہیں مگر اسد عمر‘ عمران اسماعیل قبیل کے رہنما ان مستند باتوں کو ہوائی یعنی جھوٹی کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ جھوٹی باتیں ہیں تو خود خان صاحب نے جو اعتراف کیا ہے کہ ’’میں کوئی گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر تو نہیں گیا تھا۔‘‘ اس پر کیا کہا جائے ۔ اب ذرا انکار اور اقرار کی گرد چھٹے تو منظر سامنے آئے کہ سچ کیا ہے اور کیا جھوٹ کیا ہے۔ عمران اسماعیل کے مطابق مذاکرات کا تو آپشن ہی نہیں بچا۔ جبکہ سب جانتے ہیں ہر جنگ کا اختتام یا تو کامل شکست پر ہوتا ہے یا فتح پر‘ لیکن سیاست کی جنگ میں سب سے آخری آپشن مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال اس وقت حکومت الیکشن کے حوالے سے بات چیت پر آمادہ نظر آتی ہے۔ مگر پی ٹی آئی والے کسی کی من پسند تبدیلی اور فوری الیکشن دونوں کو موضوع بنانا چاہتے ہیں جسے ہم کہہ سکتے ہیں ایک تیرسے دو شکار کرنے کے چکروں میں ہیں اور حکومت ان کے چکر میں نہیں آرہی اور عوام گھن چکر ہو رہے ہیں۔
٭٭……٭٭……٭٭
اورنج میٹرو ٹرین کی سالگرہ‘ یومیہ ایک لاکھ 70 ہزار مسافر فائدہ اٹھاتے ہیں
عوامی مفاد کا جو بھی منصوبہ ہو‘ اسے سیاسی تنگ نظری سے ہٹ کر بہر صورت مکمل کرنا اور فعال رکھنا چاہئے۔ یہی میٹرو بس تھی اسے سب مخالفین جنگلہ بس کہتے نہیں تھکتے تھے‘ آج ایک بہترین عوام دوست سستی اور محفوظ سواری کی شکل میں کر ہمارے سامنے ہے۔ اس سستی ایئرکنڈیشنڈ سواری میں گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ اسی طرح اورنج ٹرین کا منصوبہ جب شروع ہوا تو اسے لاہور کے بیچوں بیچ کنکریٹ کی دیوار کہا گیا۔ شہر کی شکل بگاڑنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا مگر آج اس کی سالگرہ پر دیکھیں کیا اپنے‘ کیا پرائے سب مبارکباد دیتے پھر رہے ہیں۔ ماہانہ لاکھوں اور روزانہ ایک لاکھ 20 ہزار مسافر اس محفوظ اور اے سی والی آرام دہ ٹرین میں کم قیمت ٹکٹ پر طویل و نزدیک کا سفر طے کرتے ہیں جس سے گھنٹے کا سفر منٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر جن کے ٹرانسپورٹ کے ہزاروں روپے ماہانہ اخراجات تھے‘ وہ اب چند سو پر آگئے ہیں۔ یوں اس میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اب موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے بھی لاہوریوں کو ایک خوشخبری دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لاہور میں بلیو ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو داتا دربار‘ ماڈل ٹائون تا ایئرپورٹ چلے گی۔ زبردست بہت اچھا کام ہے یہ منصوبہ جلد مکمل ہونا چاہئے ورنہ کاغذوں میں ہی کئی سال ضائع ہو جاتے ہیں اور لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ عوام کی سہولت کے تمام منصوبے خواہ ٹرین ہو یا بس کی شکل میں‘ ضرور بننے دیں۔ اس میں عوام کا ہی بھلا ہوتا ہے۔
٭٭……٭٭……٭٭
پاکستا ن کرکٹ ٹیم کی 13 سال بعد آسٹریلیا میں پہلی فتح
چلیں جی مبارک ہو یہ توپ چلا کر ہماری کرکٹ ٹیم نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس پر کرکٹ شائقین کی کچھ تو تسلی ہوئی ہوگی۔ اب اس حقیقت سے کون آنکھیں چرائے کہ تمام تر مبارکباد کے باوجود یہ ایک چھوٹی فتح ہے۔ ایک ممولے کو کسی شہباز سے لڑانے کے بعد شہباز کو اس گیم آف ڈیتھ کا فاتح قرار دیا جائے تو وہ فتح حقیقت میں پُرلطف نہیں کہلائے گی۔ مزہ اس فتح میں آتا ہے جب حریف برابر کا ہو۔ مقابلہ سخت ہو اور جان عزیز۔ یہاںایسا کچھ بھی نہ تھا۔ نیدرلینڈ کی نوآموز ٹیم جو ایک بڑا سکور بھی نہ بنا سکی‘ اس کو ایک عالمی بہترین ٹیموں میں شامل ٹیم نے ہرانا ہی تھا۔ اصل جیت کا مزہ تو تب تھا کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھارت سے جیتتی۔ زمبابوے سے شکست پر تو ہم سوائے تاسف کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ اب یہ بھی ہم نے دیکھنا تھا تو دیکھ لیا۔ ورنہ ہماری ٹیم اتنی بھی گئی گزری نہیں تھی کہ زمبابوے جو پہلے ہی ہم سے شکست کا بوجھ اٹھائے نظر جھکائے پھر رہا تھا ہمیں ہی مات دے گیا۔ وہ بھی ایسی کہ ہماری ٹی ٹونٹی ایشیا کپ میں سیمی فائنل تک پہنچنے کی راہیں بھی مسدود کر گیا۔۔ اب چلیں بابراعظم اینڈ کمپنی نیدرلینڈ سے جیت پر چند دن خوشی منا لے اور دعائیں کرلے کہ فلاں فلاں سے ہار جائے اور فلاں فلاں سے جیت جائے تو شاید پاکستان ٹیم کی کوئی راہ نکل آئے سیمی فائنل کی ورنہ وطن واپسی کی راہ تو کھلی ہوئی ہے۔ جہاں آنے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
٭٭……٭٭……٭٭
غذائی اشیاء کے نرخ بڑھنے کی وجہ نامناسب پالیسیاں ہیں: مسابقتی کمشن کی جائزہ رپورٹ
یہ جائزہ رپورٹ نہیں چشم کشا رپورٹ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی حقائق کے منافی پالیسیاں اسی طرح ہماری معیشت اور عوام کی قوت خرید کی کمر توڑتی ہیں۔ سب کچھ نظر آرہا ہوتا ہے مگر کف افسوس ملتے ہوئے سب یہی کہتے ہیں کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ جب یہی سیاستدان حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو خودکوامرت دھارا کی شکل میں پیش کرتے ہیں کہ ہم عوام کے تمام مسائل چٹکی بجاتے ہی حل کر دیں گے مگر جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر وہی
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کیسے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیںکیوں سلگائیں تمہیں
عوام کو صرف یہی باور کرایا جاتا ہے کہ حکومت کو عوام کا بہت غم ہے‘ ان کی تکالیف کا احساس ہے مگر کیا کریں ہم مجبور ہیں پھر بھی دن رات مسائل کے حل میں کوشاں رہتے ہیں چین و آرام ہم پر حرام ہے۔ عوام کی بات بھی نرالی ہے یہ بھی ان جھوٹی باتوں پر بہل جاتے ہیں۔ یوں سیاسی ڈھونگی مداری؎
ڈگڈگی بجا کر ذرا میلہ جما کے
بندر کو ناچ نچائوں گا
کا گیت سناتا ہے اورلوگ اسی طرح بہل جاتے ہیں جس طرح روتے ہوئے ضد کرتے ہوئے بچے کسی مداری کا کھیل دیکھ کر رونا بھول جاتے ہیں۔ اب کوئی مرد دانا ایسا بھی ہو جو ان نامناسب پالیسیوں کی اصلاح کرکے ان کو درست کرے تاکہ عوام کو مہنگائی سے نجات مل سکے۔ ورنہ یہ رپورٹ بھی دیکھ لیں جو وزارت خزانہ نے جاری کی ہے کہ جولائی تا ستمبر مہنگائی کی شرح 25.1 فیصد رہی ہے۔ آگے گنے‘ کپاس اور چاول کی پیداوار میں کمی سے مزیدمہنگائی بنا کسی فرمائش کے مزید بڑھے گی۔اور عوام کی چیخیں نکلتی رہیں گی۔
٭٭……٭٭……٭٭