ارشد شریف کے قتل کے ذمہ دار کیا کٹہرے میں آ سکیں گے؟ یہ سوال ہر اس شخص کی زبان پر ہے جو ارشد شریف کے قتل پر رنجید ہ ہے۔ پاکستان میں سیاسی مخالفت کو دشمنی تک لے جایا جاتاہے۔ سیاست دانوں کے مابین دشمنیاں سیاسی مفادات کی خاطر ہوتی ہیں۔سیاست میں فائدے کے لیے دوستی دشمنی میں بدلتے اور دشمنی دوستی میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔ سیاستدانوں کے حامی بھی اسی ڈگر پر چلتے ہیں۔ میڈیا بھی ڈیوائیڈ ہے۔ میڈیا کے لوگ بھی اسی طرح تقسیم ہیں۔ ارشد شریف کا بھی ایک سیاسی نکتہ نظر تھا۔ آج کل اس نکتہ نظر کے لوگ زیرِ عتاب ہیں۔ ارشد شریف پر ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ مقدمات تھے۔ ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے۔ کئی کیسز میں وہ عدالت میںپیش ہوتے رہے،ضمانتیں بھی کرائیں۔ کئی دیگر صحافیوں پر بھی مقدمات تھے۔ ان میں سے کچھ کو گرفتار کیا گیا ۔ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ بھی جاری ہوا تو وہ ملک چھوڑ گئے۔ ان کو 23اکتوبر کو کینیا میں شاہراہِ پر پولیس نے سر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ غلط شناخت کی وجہ سے پاکستانی صحافی کا قتل ہوا۔ کینیا ہی کے حکام نے یہ بھی کہا کہ ارشد شریف کا تعاقب پاکستان سے آئے گینگ بھی کر رہے تھے۔
یوں....ارشدشریف کے قتل کے کُھرے مٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ قتل کوئی بھی کسی نے بھی کیا ہو۔ قاتل جتنا بھی ذہین ہو قتل کا سراغ ضرور چھوڑ جاتاہے۔ اگر قتل اخفامیں رہ جاتا ہے۔ قاتل بے نقاب ہونے سے اگر بچتاہے تو اس کی ایک وجہ ناقص پراسیکیوشن اور دوسری وجہ قاتل کا طاقتور ہونا ہے۔ لیاقت علی خان، جنرل ضیاءالحق اور بینظیر بھٹو کے قاتل موخرالذکر وجہ سے سامنے نہ آ سکے۔ ارشد شریف کا قتل حادثاتی بھی ہو سکتا ہے مگر پاکستان میں جس طرح اس قتل پر ردعمل آیا خصوصی طور پر جو اقدامات اٹھائے گئے ان سے معاملہ مشکوک ہو گیا۔فیصل واوڈاکی اس کانفرنس کا کیا مقصد تھا۔ کچھ لوگوں کی طرف سے اپنی صفائیاں پیش کی گئیں اور سیاسی مقاصد کے لیے الزامات بھی لگائے گئے۔ حکومت نے ایک کمیٹی بنا دی جس میں پہلے آئی بی اور ایف آئی کے ساتھ آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی شامل تھا جسے فوج کی طرف سے واپس بلا لیا گیا۔اس سے باقی کمیٹی کی ساکھ بالکل ہی ختم ہو گئی۔
ارشد شریف کے قتل میں کون لوگ ملوث ہیں اس کا تعین صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے کہ تحقیقات یو این کرے۔ پاکستان سے جانے والی کمیٹی سے کینیا حکومت اپنی مرضی کے مطابق بات کرے گی۔ اس کے علاوہ مجرموں تک پہنچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
قارئین! راقم خود بھی ایک انٹرنیشنل انویسٹی گیشن ادارے سے ستائیس سال منسلک رہا ہے ۔اگر ہم ارشد شریف کیس کی ٹیکنیکل بنیادوں پر چھان بین کریں تو میرے سامنے یہ ایک حل شدہ کیس ہے ۔اورمیں اپنے تجربے کی وجہ سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قتل کے پیچھے کون سے اور کیا محرکات پوشیدہ ہیں۔گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو ذہن میں لا کر سنیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس کیس کے پیچھے کم از کم اسٹیبلشمنٹ کا کوئی خاص رول نہیں ہے مگر اس کیس کی مماثلت بے نظیر بھٹو کے بھائی اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بیٹے میرمرتضیٰ بھٹو شہید کے ٹارگٹ کلنگ جیسی ہے۔قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ میرمرتضیٰ بھٹو کو بھی قتل کروانے کے لیے کراچی پولیس کا انتخاب کیا گیا اور پھر اس قتل میں نامزد اور ملوث ایس ایچ او کو بھی بعدازاں بڑی صفائی کے ساتھ راستے سے ہٹا دیا گیا۔اور یہ کیس بظاہر عوام کی نظر میں ایک حل شدہ کیس ہے مگر حتمی شواہد مٹا دینے کی وجہ سے آج تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔اور بالکل اس سے ملتے جلتے طریقے سے پولیس ہی کے ذریعے ارشد شریف کو شہید کروایا گیا۔یعنی میرمرتضیٰ بھٹو اور ارشد شریف کے لیے ایک جیسا طریقہ استعمال کیا گیا۔
قارئین!آج بھی اس واردات میں ملوث بنیادی کرداروں کو شاملِ تفتیش کیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نکل آئے گا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ قتل کا خون کہیں نہ کہیں سے بول پڑتا ہے۔ اور بس قاتل اتنی دیر کے لیے ہی محفوظ ہوتا ہے۔ارشد شریف شہید کے کیس میں بھی عوام کو میڈیا کے ذریعے مختلف سٹوریز سنائی جاتی رہیں تاکہ عوام کی رائے تقسیم کی جا سکے۔ مجھے قوی یقین کہ ارشد شریف کے قتل کیس کی انویسٹی گیشن کسی بین الاقوامی ادارے سے کروائی گئی تو یہ اندھا قتل چند ہی روز میں اپنے قاتلوں کو پہچان لے گا۔اگر اس کیس سے کھلواڑ کیا گیا اور کنفیوژن پیدا کی گئی تو یہ کیس بھی ماضی میں ہونے والی دیگر کیسز کی طرح حل نہ ہو سکے گا۔بقول مومن خاں مومن :
الجھا ہے پاﺅں یار کا زُلفِ دراز میں
لو! آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا