پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟


سیّد ارتقاءاحمد زیدی irtiqa.z@gmail.com 
ارتقاءنامہ
    پاکستان جنوبی افریقہ سے میچ ہار کر کرکٹ کے عالمی کپ سے باہر ہوگیا ہے۔ کرکٹ کے شائقین بہت عرصے سے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ موجودہ ٹیم اس قابل نہیں کہ سیمی فائنل میں پہنچ سکے۔ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ٹیم کا غلط چناﺅ ہے۔ سلیکشن کمیٹی اور کپتا ن کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ عالمی کپ کوئی عام مقابلہ نہیں۔اس میں دُنیا کی بہترین ٹیمیں مدمقابل ہوتی ہیں۔ اس لئے پاکستان کو بھی اپنی ٹیم کا چناﺅ کارکردگی اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔ اس مقابلے میں دوستیاں نبھانے یاد دشمنیاں نکالنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ باصلاحیت ناراض کھلاڑیوں کو بھی منا کر ٹیم کا حصہ بنانا چاہئے تھا۔ محمد عامر۔ عماد وسیم اور سرفرار کو ٹیم میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ ایک اور فاش غلطی یہ کی گئی کہ لیگ سپنر ابرار احمد کو ٹیم کا حصہ بنانے کی بجائے ریزرو میں رکھا گیا۔ جبکہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت اپنے ہوم گراﺅنڈ پر سپنر کے لئے سازگار وکٹیں بنائے گا۔
    ٹیم کی ناقص کارکردگی کی دوسری وجہ حد سے زیادہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرنا ہے۔پہلے پاور پلے کے 10اورز میں صرف دو فیلڈرز 30 گز کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر ٹیم نے جارحانہ حکمت عملی اپنا کر چوکے اور چھکے لگائے اور زیادہ سے زیادہ رنز بنائے۔ جبکہ پاکستان کی ٹیم اپنے دفاعی خول سے باہر نہ نکلی اور 20سال پرانی روائتی روش برقرار رکھی کہ شروع میں وکٹیں بچائی جائیں تاکہ بعد میں کھل کر کھیل سکیں لیکن ہر میچ میں یہ حکمت عملی ناکام ہوئی۔
    بابراعظم نے بحیثیت کپتان انتہائی نااہلی کا مظاہرہ کیا۔جنوبی افریقہ کے خلاف میچ پاکستان کے لئے انتہائی اہم تھا کیونکہ سیمی فائنل میں پہنچنے کی اُمید برقرار رکھنے کے لئے جنوبی افریقہ کو شکست دینا لازمی تھا۔ لیکن بابراعظم نے کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر تیار نہیں کیا کہ انہوں نے ہر صورت50 اورز کھیلنے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری ٹیم 46.4اورز میں 270 رنز پر آﺅٹ ہوگئی۔ اگر پورے اورز کھیل لیتی تو کم از کم 290 رنز باآسانی بن سکتے تھے۔ بدقسمتی سے ہماری ٹیم میں کوئی میچ جیتنے والا آل راﺅنڈر نہیں جبکہ دوسری ٹیموں میں اتنے باصلاحیت آل راﺅنڈر ہیں جو سنچری بھی بناتے اور تین یا چار وکٹیں بھی لے لیتے ہیں۔
    کپتان نے بیٹنگ میں ناکامی کے بعد ہمت ہاردی اور بالرز کو اچھی طرح استعمال نہیں کیا اور فیلڈرز کو بھی بالنگ کی مناسبت سے صحیح جگہ پر کھڑا نہیں کیا۔ بالرز نے وکٹوں میں بالنگ نہیں کرائی۔ کم اسکور کا دفاع کرنے کے لئے ایک ایک رن روکنا چاہئے تھا لیکن 21رنز ایکسٹرا دے دیئے جن میں زیادہ تر وائڈ بالز تھیں۔ شاید پاکستان کی واحد ٹیم ہے جس کے سپنرز بھی وائڈ با کراتے ہیں جس کا بین الاقوامی کرکٹ میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا یہ صرف لاپرواہی اور نااہلی کی بنا پر ہوتا ہے۔
    بالرز اور فیلڈرز کی ان سب کمزوریوں کے باوجود جب 250 رنز پر جنوبی افریقہ کے 8 کھلاڑی آﺅٹ ہوگئے تب بھی بابر اعظم نے دفاعی فیلڈنگ برقرار رکھی اور فیلڈرز کو باﺅنڈری پر ہی کھڑا رکھا جبکہ اس وقت جنوبی افریقہ کے بلے باز سخت دباﺅ میں تھے اور سنگل رنز لے رہے تھے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی ۔ کم از کم دوسلپز لینی چاہئے تھیں اور تمام کھلاڑی 30 گز کے دائرے میں لا کر سنگلز روکنے چاہئے تھے۔
    جب 260 رنز پر جنوبی افریقہ کا آخری کھلاڑی کھیلنے آیا تو اسے ٹیم کی شکست صاف نظر آرہی تھی۔ جنوبی افریقہ کی پوری ٹیم بوکھلائی ہوئی تھی۔ بابراعظم نے اس نازک مرحلے پر بھی سنگل رنز روکنے کی کوشش نہیں کی اور پرانی روش برقرار رکھی۔
    جب فاسٹ بالرز کے او رز ختم ہوگئے تھے اور سپنر کو اوور دینا ناگزیر ہوگیا تھا تب بھی ایک اور غلطی یہ کی کہ محمد نواز کو اوور دے دیا۔ جبکہ محمد نواز اس عالمی کپ میں نہ تو بیٹنگ اور نہ ہی اچھی بالنگ کر چکا تھا اور بے حد دباﺅ میں تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ آخری اوور کرتے ہوئے کئی میچ ہروا چکا تھا۔ اس لئے محمد نواز کو ایک بار پھر آزمانے کی بجائے اُسامہ میر کو یہ اوور دینا چاہئے تھا۔
    خیر جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اَب آگے کے لئے سوچنا چاہئے آئندہ مقابلوں کے لئے بابراعظم کی جنگہ کسی اور کو کپتان بنانا چاہئے۔ چونکہ شاداب اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکا اس لئے محمد رضوان کو کپتان بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔
    

ای پیپر دی نیشن