انتخابی بغل

Nov 01, 2023

میاں حبیب

تاحال کہا جا رہا ہے کہ انتخابات جنوری کے آخر یا فروری میں ہوں گے لیکن تاریخ دینے کا رسک کوئی نہیں لے رہا سوچا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف کے وطن پہنچتے ہی ماحول تبدیل ہو جائے گا لیکن عوامی مزاج میں رتی برابر تبدیلی نظر نہیں آرہی مسلم لیگ ن مینار پاکستان پر ہونے والے استقبالی جلسے کے نشے سے باہر نہیں آ پا رہی نہ ہی مسلم لیگ ن نے باضابطہ طور پر تاحال انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے میاں نواز شریف ابھی تک اپنی لیگل پوزیشن اور سیاسی امور کا جائزہ لے رہے ہیں ابھی انھوں نے باضابطہ طور پر عوام میں جانے کا فیصلہ نہیں کیا البتہ تحریر کے وقت تک میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ن لیگ کا مشاورتی اجلاس جاری تھا جس میں سیاسی صورتحال کا جائزہ لے کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہے جلسوں کے شیڈول پر بھی بات ہو گی سیاسی جماعتیں ابھی تک اپنے ڈرائنگ روموں میں کیا کرنا چاہیے پر غور کر رہی ہیں تاہم استحکام پاکستان پارٹی دل گردے کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام میں کود پڑی ہےاستحکام پاکستان پارٹی پہلی پاکستان کی سیاسی جماعت ہے جس نے سب سے پہلے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھا ہے آئی پی پی نے جہانیاں میں عوامی اجتماع منعقد کرکے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
 پارٹی کے صدر علیم خان نے پارٹی منشور کا بھی اعلان کیا جو کہ کافی متاثر کن ہے جس میں موٹر سائیکل سواروں کو سستا پٹرول دینا اور غریب لوگوں کے لیے ایک حد تک بجلی فری دینے سمیت عوام کو دینے کے لیے کافی کچھ ہے جو کہ عوامی مشکلات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے چونکہ پنجاب ایک زرعی صوبہ ہے اس لیے زراعت میں ترقی کے حوالے سے جہانگیر ترین ایک ماہر کے طور پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ انقلابی زرعی پالیسی سے پنجاب کے دیہی ووٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
 تحریک انصاف کے ساتھی استحکام پاکستان پارٹی میں جانے میں کمفرٹیبل محسوس کرتے ہیں اس لیے یہ بھی توقع ہے کہ تحریک انصاف سے بچھڑنے والوں کی کثیر تعداد استحکام پاکستان پارٹی میں آجائے گی تیسرا ان کا فوکس جنوبی پنجاب ہو گا تحریک انصاف کے مستقبل بارے کچھ واضح نہیں ہو رہا ایسے ماحول میں اگر الیکشن ہوتے ہیں تو مسلم لیگ ن کے مقابلے میں استحکام پاکستان پارٹی کھڑی ہو گی علیم خان پنجاب کی وزات اعلی کے مضبوط امیدوار ہوں گے کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی مسلم لیگ ن کی مخالفت میں ڈٹ کر الیکشن لڑے گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد آئی پی پی اور ن لیگ مرکز اور پنجاب میں مل کر حکومت بنائیں ایسی صورت میں بھی علیم خان پنجاب کے وزیر اعلی ہوں گے مرکز مسلم لیگ ن کو دیا جائے گا وزارت عظمی ان کے پاس ہوگی اور پنجاب کی پگ استحکام پاکستان پارٹی کے سر پر سجائی جائے گی خیبر پختون خواہ میں فری ہینڈ تو مولانا فضل الرحمن کو دیا گیا ہے۔
 مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں وہ اپنے روایتی حربوں سے پر اسرار چالیں چل رہے ہیں جس سے وہاں کی ساری سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں لیکن سمجھ کسی کو نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے پرویز خٹک بھی اپنے طور پر تحریک انصاف کو ڈمیج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اے این پی مولانا فضل الرحمن سے اتحاد بھی کر سکتی ہے اور اپنے طور پر بھی الیکشن لڑ سکتی ہے لیکن انھیں شکوہ ہے کہ ساری سہولتیں مولانا کے لیے ہی کیوں ہیں مولانا کا جارحانہ انداز سیاست سے اے این پی کی سیاست متاثر ہو رہی ہے مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی ابھی تک کھل کر انتخابی مہم نہیں چلا رہی بلکہ انھیں تو خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں دہشتگردی کا بھی سامنا ہے ان کے دوجلسوں پر اٹیک ہو چکا ہے پرویز خٹک کو بھی کوئی خاص رسپانس نہیں مل رہا۔
 سندھ میں پیپلزپارٹی اپنے تائیں چھوٹے چھوٹے جلسے کر رہی ہے لیکن کھل کر پورے ملک میں ابھی تک کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی الیکشن مہم شروع نہیں کی سندھ میں اس بار پیپلزپارٹی کو ایک مضبوط سیاسی اتحاد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے بلوچستان میں انتخابی فضا ذرا مختلف قسم کی ہوتی ہے وہاں باقی ملک کی طرح انتخابی رنگ نہیں جمتا لیکن وہاں بھی انتخابی سرگرمیاں اور جوڑ توڑ نہ ہونے کے برابر ہے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تو بہت زیادہ ہیں اور وہ انتخابی عمل میں چھلانگ لگانے لیے پر بھی تول رہے ہیں لیکن وہ انتخابات کی واضح تاریخ کے اعلان تک سامنے آنے سے گریزاں ہیں نومبر آگیا ہے لیکن الیکشن کی تاریخ نہیں آرہی اگر جنوری فروری میں الیکشن کرونا مقصود ہیں تو پھر اگلے چند روز تک الیکشن شیڈول آجانا چاہیے ورنہ الیکشن کے انعقاد بارے شکوک وشبہات گہرے ہوتے جائیں گے۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں