غزہ پر 24 ویں روز بھی اسرائیلی بموں کی بارش سے مزید سینکڑوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ وسطی غزہ میں اسرائیلی بمباری سے دیرالبلا کی مسجد بلال بن رباح بھی شہید ہو گئی۔ ڈاکٹرز ود آﺅٹ بارڈرز کے مطابق ہسپتال زخمیوں سے اور مردہ خانے نعشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ 7 اکتوبر سے اسرائیلی حملوں میں شہداءکی تعداد 9ہزار سے زیادہ، زخمیوں کی 20 ہزار تک جا پہنچی، 4000 سے زیادہ بچے بھی شہداءمیں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات فرانسیسکا البانیز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں حق دفاع حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں قابض قوت ہے جبکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے کہا ہے کہ غزہ کو امداد کی فراہمی میں رکاوٹ اسکے دائرہ اختیار کے تحت جرم کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے حماس کی حمایت کا الزام لگا کر فلسطینی اتھارٹی کے اکاﺅنٹس منجمد کر دیئے جبکہ برطانوی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کرنےوالوں کا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ میری نظر میں یہ ہیٹ مارچ ہیں۔ پولیس کو یہود مخالف سرگرمیوں پر نرمی کامظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔
اسرائیل کی بدترین جارحیت کی حمایت میں الحادی قوتوں کا گٹھ جوڑ اور مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے جبکہ ان کا دوغلا پن بھی مسلم دنیا کے سامنے آچکا ہے۔اگر مسلم ممالک اب بھی متحد نہ ہوئے تو وہ الحادی قوتوں کی بربریت کا نشانہ بن کر فلسطین کی طرح ایک ایک کرکے اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں کی من مانیوں نے اقوام متحدہ کو ایک غیرفعال ادارہ بنا دیا ہے‘ یہ طاقتور ملک نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلکہ تاریخ کے بدترین جارح اور ناجائز ریاست کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ ایک بے بس اور لاچار ادارہ بن کر انکی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دو روز قبل ایرانی صدر نے امریکہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنی تمام حدیں پارکرچکا ہے‘ وہ اب ہمارے جواب کا انتظار کرے۔ ایران کی یہ دھمکی عالمی طاقتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ فلسطین کی حمایت میں ابھی ایران کھڑا ہوا ہے‘اگر دوسرے مسلم ممالک بھی متحد ہو گئے تو یہ جنگ مزید پھیل سکتی ہے جو بالآخر اس کرہ ارض پر انسانی وجود کے خاتمہ پر منتج ہوگی۔ اس لئے اقوام متحدہ بالخصوص اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہونے والے ملکوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔