امیر محمدخان
میرا چوکیدار باقاعدگی سے پاکستانی چینلز پر ٹاک شوز دیکھتا ہے اور اسکی خواہش ہوتی ہے کہ مجھ سے ٹاک شو میں کہی باتوں پر بات کرے میں نے ہمیشہ در گزر کیا اور مصروفیت کا بہانہ بنایا ، وہ مجھے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ کہہ کر آپکو دلچسپی نہیںبڑے بڑے تجزیہ کار اظہار خیال کرتے ہیں اور بتاتے ہیںکہ کیا غلط ہے یا کیا سچ ، اسکا کہنا تھا وہ کہتے ہیں کہ آئیندہ کیا ہونے والا ہے ، میں نے اس پوچھا کہ کیا نجومیوں کا پروگرام دیکھتے ہو۔اسکا کہنا تھا سر وہ تو عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کا نتیجہ بھی پہلے سے بتاتے ہیںوہ بتادیتے ہیں حکومت کب جانے والی ہے آپ تو اتنے اہم انکشافات سے محرو م ہی ہیں۔ دو روز قبل میرے گھر سے نکلتے ہی اس نے مبارکباد دی ”سر مبارک ہو میں نے پوچھا خیر مبارک ، کیا پاکستان میں آپکے گھر اولاد ہوئی ہے ، وہ کہتا ہے سر آپکو تو پتہ ہی نہیں 26ویں ترمیم منظور ہوگئی ہے ، میں نے مذاق سے پوچھا یہ ترمیم کیا ہے ،؟ اس نے جواب دیا وہ تو مجھے مکمل نہیں معلوم بس اب ترمیم پاس ہوگئی ہے ۔ میں نے پھر پوچھا کیا اس سے آٹا ، چینی ، دال ، بجلی سستی ہوگئی ہے ؟؟وہ بڑا مایوس ہوا کہ نہیںسر ایسا تو نہیں ہوا ، مگر اسمبلی میں بیٹھے ہمارے نمائیندے کسی بھی چیف جسسٹس سے زیادہ قابل ہیں، جو قابل ہوتا ہے وہی ہی کسی کو تعنیات کرتا ہے ، میں نے اس سے کہا کہ یار ،اسمبلی میں تو دھینگا مشتی ہوتی ہے کیا اسمبلی کا منظر دیکھ کر کوئی کہہ سکتاہے کہ یہ قابل لوگوں کا اجتماع ہے ۔ ، یہ سب تحریر کرنے کا مقصد میرا یہ ہے کہ اس ملک کے عوام تعلیم سے بحرہ ور نہیں سائیں ، چوہدری ، سردار جو کہتے ہیں وہ اس پر چل پٹرتے ہیں میڈیا بھی انکی نمائیندہ ہے کاروباری لوگ الیکٹرونک میڈیا چلا رہے ہیںوہاں صرف مفادات کے مطابق ہی انینکرز لئے جاتے ہیں اور ٹاک شو میں مہمان ، عوام کو سچی بات کون بتائے ، اس ملک کیلئے پرنٹ میڈیا کو دوبارہ اپنی جوبن پر آنا ضروری ہے جہاں اپنے رائے کا اظہار توکیا جاسکتا ہے اور صحافی کا قلم ابھی مکمل بکا نہیںبے شمار صحافی وطن میں موجود ہیں جنہیںکوئی خرید نہ سکا، انکی آواز چاہے نحیف ہو اشتہارات کا بندش یا کمی کا مسئلہ آجاتا ہے مگر عوام کو سچ بتانے کی کوشش ضرور کرتے ہیںموجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے حکومت سخت مشکلات کا شکا ر رہی ہے ، خزانہ خالی ، ملک کا ہر شعبہ قرض میں ڈوبا ہوا ، کبھی آئی ایم ایف ، کبھی چین، سعودی عرب کی طرف امداد کیلئے نظریں، بیرونی دنیا سیاسی لوگوںکو قابل اعتبار نہیں سمجھتی اسلے عسکری ادارہ جن کا قول فعل با عمل ہوتا ہے اسکی اعلی قیادت کو درمیان میں آنا پٹرتا ہے اس کا اعتراف گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کیا دوستوں کی مدد سے ملکی کی معیشت دھیرے دھیرے کھڑی ہورہی ہے اسکے باوجود جو لوگ ملک کی سالمیت کے مقابلے میں اپنی کرسی کو فوقیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نہیں تو پھر ملک بھی نہیں( خداناخواستہ ) وہ تاحال اپنی ریشہ دوانیوںپر قائم و دائم ملکی تاریخ ، بلکہ دنیا کی تاریخ کا ایک عجیب قیدی جو جیل میں بیٹھ کر اپنی جماعت کے دست و گریبان لوگوںکی صلح صفائی کراتا ہے یہ ملک کی تاریخ کا عجیب قیدی نہیں ہمارے قانون کا تماشہ ہے جسکا شائد 26ویں ، 27، 28 ترامیم کے بعد بھی بننے والے کوئی چیف جسسٹس یا عدلیہ تدارک نہیں کرسکتی حکومت ، عدالتوں کے اس نرم گوشے جس نے دوسال گزرنے کے قریب بھی تاحال دودھ کا دودھ پانی کا پانی نہیں کیا اور لوگوں کے خصوصی طور نوجوانوں کے ذہنوںکوپراگندہ کیا ہے کہ ہمارے کونسا قانون ہے کہ جیل میں بیٹھا شخص جو اپنے کرتوتوںکی بناءپاکستان کے اعلی اداروں سے خود تو لڑ رہا ہے مگر اپنی جماعت کے لڑنے والوںکی دوستی جیل میں بیٹھ کر کراتا ہے جو لوگ ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام اور انتشار کا شکار بنانا چاہتے تھے وہ خود انتشار کا شکار ہو گئے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے بیرونی دباﺅڈالنے کی کوششیں نہ پہلے کامیاب ہوئیں اور نہ آئندہ کامیاب ہوں گی۔ امریکہ اور برطانیہ میں بعض لوگوں کی طرف سے اپنی حکومتوں کو لکھے گئے خطوط اور قراردادیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں ایک فیصد بھی کارآمد نہیں ہو سکتیں۔ ایسا کر نیوالے بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بھی طرح بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے مددگار ثابت نہیں ہو حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما ،یہ نہیں چاہتے کہ بانی جیل سے باہر ہو۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری مخدوم شاہ محمود قریشی کی رہائی کی کوئی بات ہی نہیںکرتا ۔ ذرائع بتاتے ہیںکہ اس جماعت میں موجود انتشار میں مزید اضافہ ہوگا۔ جس کی زد میں وہ بھی آئیں گے جو پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کے خواہشمند ہیں اور اس پر کام بھی شروع کر چکے ہیں۔بہرحال اس کھیل میںایک طرف پی ٹی آئی کو انتشاری جماعت بنا دیا گیا ہے دوسری جانب میاں شہباز شریف کی حکومت ملکی معیشت کو بہتری کی طرف لیجارہی ہے ، یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کے ابتدائی آٹھ مہینوں ہی میں افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اسکے باوجود کہ بیرون ملک پلنے والے سفارت کاروں کی اس میں کوئی کارکردگی نہیں ترسیلات ذر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے۔ مالی خسارے میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ تجارتی توازن ادائیگی بہتر ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی شرح سود 22 فیصد سے17.5فیصد پر آگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسٹاک ایکسچینج مسلسل بلندی کی جانب رواں ہے اور روز نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔ لیکن ان میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری کے باوجود غربت میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کی وجوہات کا تعین کرکے ان کا کم سے کم وقت میں تدارک کیا جانا چاہیے۔ اس صورت حال کے دو اسبا ب بہت واضح ہیں۔ ملک کے دوصوبوں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے جس کے باعث کے پی میں بیشتر کارخانے بند ہیں اور بلوچستان میں بھی معاشی سرگرمی سخت منفی اثرات کی زد میں ہے۔ بجلی اور گیس کی مہنگائی بھی صنعتوں کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ وزیر اعظم کے کئی مرتبہ اعلانات کے باوجود وزارتیں، اور نوکر شاہی اپنے اخراجات کو بلکل لگام نہیں دے رہیں بیرون ملک سفارت خانوں، قونصل خانوںکا حقیقی آڈیٹ ہو تو بلاوجہ اسٹاف اور دیگر اخراجات کی مد میں اربوںروپے کی بچت ہوسکتی ہے مگر کون کرے ؟؟ ۔وزیر اعظم ملکو ں ملکوں گھوم کر خارجی تعلقات بڑھا رہے ہیں مگر انکی کارکردگی کو نقصان پہنچانے والوںکی نشاندہی اور انہیںگھر کا راستہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے
ملک کی معیشت کی بہتری ، وزارتوںکے اخراجات ؟
Nov 01, 2024