ڈاکٹر ناصر خان
تعلیم انسانی شعور کی بالیدگی اور فکری ترقی کا ایک ایسا عمل ہے جو فرد کو نہ صرف علمی معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اسے اخلاقی، فکری اور سماجی سطح پر بھی بہتر بناتا ہے۔ تعلیم ایک مسلسل اور جامع عمل ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے اور اسے ایک بامقصد زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تعلیم کا مقصد صرف نصابی مواد تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ یہ انسان کو سوچنے، سمجھنے، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ یہ انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کس طرح معلومات کو حکمت میں تبدیل کر کے زندگی میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم وہ بنیادی ستون ہے جو قوموں کو علمی، معاشرتی، اقتصادی اور فکری سطح پر بلند کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ قومیں بہتر معاشرتی اور معاشی نظام کی بنیاد رکھتی ہیں، جو ترقی کی راہوں کو ہموار کرتی ہیں۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو قوموں کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی تعلیم قوموں کو خود مختار بناتی ہے اور انہیں اپنے حقوق اور فرائض کی ادائیگی کے قابل بناتی ہے۔
ایک تعلیم یافتہ فرد نہ صرف اپنی ذات کی بہتری کے لئے کام کرتا ہے بلکہ وہ معاشرے کے دیگر افراد کے لئے بھی مثالی کردار ادا کرتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کے لئے ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کیونکہ یہی وہ عنصر ہے جو افراد کی شخصیت، معاشرتی اخلاقیات اور معاشی ترقی کو تشکیل دیتا ہے۔ تعلیم قوم کو شعور دیتی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو خود حل کریں، ایک مضبوط نظام حکومت قائم کریں اور اپنی فکری، اقتصادی اور سماجی سطح کو بہتر بنائیں۔
پاکستان میں تعلیمی معیار کے مسائل ابتدا سے ہی موجود ہیں۔ ہمارے ہاں نصاب کو درست طریقے سے ترتیب نہیں دیا جاتا، جس کے باعث طلباءکو اہم علوم اور شعبوں سے متعلق بنیادی آگاہی حاصل نہیں ہو پاتی۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں انٹرمیڈیٹ تک نفسیات، فلسفہ، معاشیات، قانون اور تاریخ جیسے اہم مضامین شامل نہیں ہوتے۔یہ علوم دنیا بھر میں تعلیم کے لازمی حصے سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ یہ مضامین نہ صرف طلباء کی ذہنی اور فکری نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ان کے مستقبل کے کیریئر کے انتخاب میں بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اگر ان مضامین پر مشتمل ایک جامع کتاب جسے 'سوشل سائنسز' کے نام سے ترتیب دیا جائے اور اسے پانچویں جماعت سے ہی طلباءکو پڑھانا شروع کیا جائے، تو انٹرمیڈیٹ تک طلباءکو نفسیات، فلسفہ، معاشیات، قانون اور تاریخ کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہو سکیں گی۔اس سے طلباءکو نہ صرف اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کو پہچاننے میں مدد ملے گی بلکہ وہ اپنی عملی زندگی اور کیریئر کے انتخاب میں بھی بہتر فیصلے کر سکیں گے۔ اس طرح کے اقدامات سے تعلیمی معیار میں بہتری آ سکتی ہے اور طلباء کو زندگی کے اہم شعبوں میں ابتدائی طور پر تربیت فراہم کی جا سکتی ہے، جو ایک ترقی پسند معاشرے کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہے۔
پاکستان میں اسکول اور کالج سطح پر جو نصاب پڑھایا جاتا ہے، وہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام زیادہ تر پرانے اور روایتی مواد پر مشتمل ہے، جو طلبائکی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کرتا ہے۔ نصاب میں شامل مواد بنیادی طور پر یادداشت پر مبنی ہوتا ہے، جس سے طلباءکو رٹنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور وہ مسائل کا عملی طور پر سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہو پاتے۔عالمی سطح پر تعلیم میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے نئے ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے، اور نصاب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان میں نصاب میں تبدیلیاں بہت کم اور سست روی سے کی جاتی ہیں، جو ہمارے تعلیمی نظام کو عالمی معیار سے پیچھے رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ، نصاب میں عملی تربیت اور جدید علوم جیسے کہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس، ماحولیات اور سوشیالوجی پر بھی مناسب توجہ نہیں دی جاتی، جو کہ مستقبل میں طلباءکی کامیابی کے لئے بہت اہم ہیں۔اسی طرح، سائنسی مضامین کا نصاب بھی جدید تحقیق کے تقاضوں کو مدِنظر نہیں رکھتا، جس کی وجہ سے طلباءکو عملی اور تجرباتی علم میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں نظامِ تعلیم اور نصاب کو ترتیب دیتے وقت ایک بڑی کمی یہ ہے کہ باقاعدہ تحقیق کا فقدان ہے۔ نصاب بنانے والی ٹیموں کو زیادہ تر وہ افراد لیڈ کر رہے ہوتے ہیں جو پرانے اور جامد نظریات کے حامل ہیں، جبکہ جدید تعلیم یافتہ افراد کی رائے یا شمولیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ پرانے نظریات پر مبنی افراد تعلیمی نصاب کو روایتوں کے دائرے میں محدود رکھتے ہیں، اور جدید تعلیمی رجحانات اور نئے دور کے چیلنجز کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
نصاب کی تیاری میں تحقیق اور تجزیے کی کمی کی وجہ سے تعلیمی معیار میں بہتری نہیں آتی اور نہ ہی طلباءکو جدید دور کی ضروریات کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ نصاب کی تشکیل میں طلباء، اساتذہ، ماہرین تعلیم، اور صنعت کے ماہرین سے کوئی سروے یا ان پٹ نہیں لیا جاتا، جس کی وجہ سے نصاب میں عملی تربیت، جدید علوم، اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والے پہلوو¿ں کی کمی پائی جاتی ہے۔
ایک مثالی تعلیمی نظام میں، نصاب کی تیاری کے لئے تحقیق پر مبنی اور عملی اقدامات ضروری ہیں۔ تعلیمی نصاب کو ترتیب دیتے وقت طلباءکی ضروریات، معاشرتی تقاضوں، عالمی معیارات، اور جدید تعلیمی رجحانات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین، صنعتوں سے منسلک افراد، اور جدید تعلیمی ماہرین کو نصاب کی تیاری میں شامل کیا جانا چاہئے، تاکہ طلباءکو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکے۔
پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل ایک اہم معاملہ ہے، لیکن بدقسمتی سے ان پالیسیوں پر نہ تو مو¿ثر انداز میں عمل درآمد کیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ پالیسیاں جامع اور مضبوط بنیادوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر لوگ کام صرف دکھاوے کے لئے کرتے ہیں، تاکہ بظاہر ایک اچھا تاثر قائم ہو سکے، بجائے اس کے کہ وہ حقیقتاً قوم اور ملک کی خدمت اور فلاح کے جذبے سے کام کریں۔
یہ مسئلہ بنیادی طور پر نیت اور عزم کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں مقصد ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کی بجائے محض عارضی اور سطحی کامیابیاں دکھانا ہوتا ہے۔ پالیسی ساز اداروں میں اکثر پالیسیز کو اتنے وسیع نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ وہ زمینی حقائق اور جدید دور کی ضروریات کے مطابق ہوں۔ پالیسیوں کی تشکیل کے وقت ماہرین تعلیم، اساتذہ، اور طلباءکی ضروریات کو مناسب طریقے سے شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ فیصلہ سازی کا عمل محدود اور بوسیدہ نظریات پر مبنی ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے نہ تو مناسب انتظامی ڈھانچہ موجود ہے اور نہ ہی اس کے لئے مخصوص وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً، پالیسیاں کاغذوں تک محدود رہتی ہیں اور عملی میدان میں ان کا کوئی مو¿ثر کردار نظر نہیں آتا۔ نچلی سطح پر پالیسیوں کے نفاذ کے لئے نگرانی اور جوابدہی کا فقدان بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے، جو نظام میں شفافیت کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
اگر پاکستان کو تعلیمی میدان میں ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہے، تو پالیسی سازی میں مخلصی، مستقل مزاجی، اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی پالیسیوں کو تشکیل دیتے وقت حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی، تحقیق، اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ ساتھ ہی، ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے مضبوط نظام، وسائل کی فراہمی، اور مخلصانہ نگرانی کا مو¿ثر انتظام بھی ضروری ہے۔ اس طرح ہم ایک تعلیمی نظام کی تعمیر کر سکتے ہیں جو نہ صرف بظاہر اچھا نظر آئے، بلکہ حقیقتاً ملک و قوم کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکے۔