بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اکثر اپنے اثاثے—خاندان، دوست، اور گھر بار—چھوڑ کر پڑھائی، نوکری دراصل بہتر مستقبل کے غرض سے پردیس کا رُخ کرتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی اس تلاش کا خمیازہ انہیں اپنے پیارے وطن اور عزیزازجاں لوگوں سے دوری کی شکل میں اٹھانا پڑتا ہے۔ دوری اس احساس سے چھٹکارے کے لئے ، وہ ایسے مواقع کی جستجو میں رہتے ہیں جوانہیں اپنے وطن کی مہک اور رنگوں کو احساس کو دیارِ غیر میں بھی بہم پہنچا سکیں ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور اپنے رسم و رواج سے وابستہ یاد کو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ منا سکیں اور اس طرح کچھ لمحوں کے لیے سہی ، پردیس کے جھمیلوں سے جان چھڑا کر اپنی جڑوں سے وابستہ ہو جائیں، اپنے شہروں، قصبوں اور گلیوں کو یاد کریں اور ماضی کے قصے سناتے ہوئے قہقہے لگائیں۔
جرمنی، میونخ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ایسا ہی ایک موقع ’دی سٹیزنز فاؤنڈیشن‘ (ٹی سی ایف) پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک رنگا رنگ تقریب نے مہیا کیا۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی تعلیمی نظام کی موجودہ صورتحال کی آگاہی دینا اور ان کو باور کرانا تھا کہ ان کے وطن میں ابھی بھی 84 فیصد آبادی خواندگی کی شرح سے نیچے ہے اور یہ کہ ٹی سی ایف ناخواندگی کے خلاف اپنے جہاد کے ذریعے پاکستانی بچوں کو تعلیم کے زیور سے کیسے آراستہ کر رہی ہے نیز یہ کہ اوورسیز پاکستانی اس بگاڑ کو بہتر ی میں تبدیل کرنے کے لئے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے زیادہ سے زیادہ بچے پڑھ لکھ کر کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
دی سٹیزنز فاؤنڈیشن (ٹی سی ایف) ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو 1995 میں قائم ہوا، جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں بنیادی تعلیم کا فروغ، اقتصادی خود مختاری اور خواتین کی بااختیاری کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، ٹی سی ایف کے زیرِ اہتمام تقریباً 2033 اسکولز چلائے جا رہے ہیں اور ان میں تقریباً 301,000 طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے ہزاروں اساتذہ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
جرمنی میں ٹی سی ایف کو متعارف کرانے اور اس تقریب کو کامیاب
بنانے میں میونخ کی پاکستانی کمیونٹی کے اراکین نعمان جاوید، ان کی اہلیہ نادیہ نعمان، زوارمنور نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
تقریب کے مہمانِ خاص شفاعت احمد کلیم، پاکستانی کونسلیٹ فرینکفرٹ میں "ہیڈ آف چانسلری" اور ڈپٹی قونصل جنرل تھے۔ وہ خاص طور پر اس ترکیب میں شرکت کے لیے فرینکفرٹ سے آئے تھے۔
پاکستان کی مشہور اداکارہ اور گلوکارہ عائشہ عمر نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور اپنے فن کا جادو جگایا۔ انہوں نے اپنا نیا گانا "ہر کوئی یار نہیں ہوندا بلیا" بھی پیش کیا۔ عائشہ عمر نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو بہت چھوٹی عمر میں کھو دیا تھا اور ان کی والدہ نے سنگل مدر کے طور پر ان کی اور ان کے بھائی کی پرورش کی۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کی والدہ کے پاس ان کی تعلیم کے لئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں تھے مگر انٹری ٹیسٹ میں اچھی پرفارمنس کی وجہ سے انہیں لاہور کے ایک مشہور اسکول نے خصوصی بنیادوں پر داخلہ دیا اور یہی تعلیم ان کے لیے خود مختار بننے میں معاون ثابت ہوئی۔
ٹی سی ایف کے ایک عہدیدار کے ساتھ گفتگو میں یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر اسکولز ان کی اپنی انتظامہ کے تحت چلائے جاتے ہیں اور چند ایک جگہ یہ فاؤنڈیشن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے تحت اسکولز چلا رہی ہے۔ اس ماڈل میں سکول کی عمارت حکومت فراہم کرتی ہے اور سکول کا انتظام اور عملہ ٹی سی ایف کے تحت ہوتا ہے۔ اسکولز کی تعمیر کے وقت ان کی لوکیشن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اسکولز کمیونٹی کے وسط یعنی 500 میٹر کے دائرے میں بنائے جاتے ہیں تاکہ بچوں کو اسکول تک کی رسائی میں مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ تقریب کے شرکا کتنے خوش نصیب ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملے اور اب وہ اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی بھی کروڑوں بچے بنیادی زیور تعلیم سے محروم ہیں۔ ٹی سی ایف اور اس جیسے دیگر ادارے جو کہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں، کو سپورٹ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بچے جو کہ معاشی مشکلات کے باعث اسکول نہیں جا سکتے، ہماری چھوٹی سی امداد سے تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنے مستقبل کو روشن بنا سکیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ایسی تقریبات نہ صرف اپنے اصل مقصد کو حاصل کرنے میں مددگار ہوتی ہیں بلکہ ضمنی طور پر میل ملاقات، پرانی یادیں تازہ کرنے کا بہانہ بھی بن جاتی ہیں۔ ہال میں موجود اکثر شرکاء کسی نہ کسی طرح اپنے شہر، گاؤں، دیہات کو یاد کرتے اور ان سے منسلک کہانیاں سناتے پائے گئے
اسی طرح میرے ساتھ بیٹھے وصیف عزیز صاحب نے لاہور کے اُس گولڈن ایرا کا ذکر چھیڑ دیا جب فروری کی سرد راتوں میں بسنت منائی جاتی تھی اور گلی گلی جشن اور میلے کا سماں ہوتا تھا۔ پھر مال روڈ کا ذکر آیا تو وہ چمن آئس کریم کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بات لکشمی چوک کے تکے کباب تک آن پہنچی تھی تو میں نے بھی مشورہ دیا کہ تھوڑا آگے جا کر بیڈن روڈ پر واقع کیری ہوم ریسٹورنٹ کے بھنے ہوئے مٹن کا تذکرہ نہ کیا گیا تو زیادتی ہو گی۔ اسی طرح چانسلر کلیم صاحب نے سی ایس ایس اکیڈمی میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کیا اور لکشمی چوک کی مچھلی کے ذائقے کی تعریف کی۔
شفاعت کلیم صاحب سے گفتگو کے دوران میں نے اس امر کا ذکر کیا کہ میونخ اور گرد و نواح کے علاقوں میں بسنے والے پاکستانی خود کو پاکستانی مشنز—جو کہ برلن میں پاکستانی ایمبیسی اور فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصلیٹ کی صورت میں موجود ہیں—سے روابط میں دُوری محسوس کرتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری کام، جس میں ایمبیسی یا قونصلیٹ کی شمولیت ہو، جیسے پاور آف اٹارنی کو قانونی حیثیت دلوانا، نئے پاسپورٹ کا اجرا یا موجودہ پاسپورٹ کی تجدید وغیرہ شامل ہیں، مشنز کے اوقات کار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور سفر کا وقت شامل کرنے پر عام طور پر ایک سے دو دن درکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام سہولیات اب آن لائن بھی دستیاب ہیں، مگر بیشتر لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر مشنز میں انفرادی طور پر جاکر یہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ
میونخ جیسے بین الاقوامی شہر میں پاکستان کا مشن میونخ اور گرد و نواح کے علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو مختلف سہولیات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ قونصلیٹ پاکستان اور جرمنی کے درمیان معاشی، ثقافتی اور عوامی روابط قائم کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
شفاعت کلیم صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے میونخ میں پاکستانی قونصلیٹ کھولنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ دراصل، انہیں پاکستان سے فارن آفس نے بطور میونخ کے قونصل جنرل مقرر کر کے جرمنی بھیجا تھا، مگر چند مالی پیچیدگیوں کی بنا پر میونخ میں قونصلیٹ کا قیام مکمل نہ ہو سکا
تقریب کا اختتام فنڈ ریزنگ سرگرمی کے ساتھ ہوا، جس میں شرکاء نے دل کھول کر اس نیک مقصد کے لیے عطیات دیے اور وعدہ کیا کہ وہ آنے والے وقت میں بھی ایسے فلاحی کاموں