پنجاب میں سموگ سے نمٹنے کیلئے گرین لاک ڈاﺅن کا آغاز۔
پنجاب میں سموگ کے تدارک کیلئے اس بار حکومت کے سخت فیصلوں سے لگتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے واقعی پریشان ہے۔ عوام کی بڑی تعداد اس ناگہانی آفت کے ہاتھوں ہسپتال جا پہنچی ہے۔ یہ مضر صحت دھند یا زہریلا دھواں کہہ لیں‘ جو پنجاب کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ کچھ ہماری اپنی اور زیادہ تر بھارتی پنجاب والوں کی لاپروائی اور فصلوں کی باقیات جلانے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب پر چھایا ہوا ہے۔ بہترین علاج تو یہی ہے کہ بارش ہو جائے اور قدرتی طور پر اس سموگ زہریلے دھند کا خاتمہ ہو جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک دھواں پھیلانے والے تمام عناصر بھٹوں‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں میں دھوئیں پر قابو پانے کے انتظامات کئے جائیں اور یہ جو سڑکوں پر اندھا دھند فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر ہزاروں لاکھوں دھواں چھوڑتی گاڑیاں‘ بسیں‘ ٹرک‘ رکشے‘ موٹر سائیکلیں‘ چنگ چی فضائی آلودگی میں اضافہ کرتے اور انسانی صحت کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ ان پر بھی اس بار سختی کے ساتھ حکومت پنجاب نےلاہور کے گرین ایریاز میں ایسے تمام ذرائع پر پابندی لگا دی ہے۔باربی کیو اور فوڈ پوائنٹس بھی 8 بجے رات کو بند ہونگے۔ کوئلہ اور کچرا جلانے کی کہی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ اگر ہو سکے تو یہ جو کم بخت کھلے عام پبلک مقامات پر سگریٹ پیتے نظر آتےہیں‘ ایک آدھ نہیں‘ روزانہ صرف لاہور میں لاکھوں سگریٹ پینے والے بھی متواتر دھواں دھار ماحول پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان پر بھی سختی سے پابندی ہونی چاہیے اور سزا و جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔ ہمیں مل جل کر اس بلا کا مقابلہ کرنا ہوگا‘۔اور اپنا لائف سٹائل بھی بدلنا ہوگا۔
پشاور جلسے سے پہلے بشریٰ بی بی کی اچانک لاہور واپسی۔
کون کہتا ہے ڈیل ہوئی یاران سیاست تو اسے ڈھیل کہہ کر ہاتھ ہولا رکھنا چاہتے تھے مگر واقف کاران سیاست کہتے ہیں کہ بہت کچھ طے ہوا ہے۔ تب جا کر یہ رعایت ملی ہے۔ جنہوں نے ضمانت دی جو ضامن بنے تھے‘ وہ کسی قسم کی ہینکی پھینکی برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل پشاور میں بانی کے حکم پر ہونے والے عظیم الشان جلسے میں جس کی بھرپور پبلسٹی کی گئی کہ اس میں بشریٰ بی بی بھی خصوصی طور پر شرکت کرینگی‘مگر دیکھ لیں سب انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور بی بی گزشتہ شام کو ہی پشاور سے عازم لاہور ہو گئیں جہاں وہ زمان پارک والی رہائش گاہ میں قیام کریں گی۔ اب تو علی امین گنڈا پور جو پارٹی رہنماﺅں اور کارکنوں کو بی بی کی رہائی اپنی کوششوں کا ثمر بتا بتا کر اپنی اہمیت دوچند کر رہے تھے جو اسلام آباد دھرنے میں راستے غائب ہونے کی وجہ سے یک چند بھی نہیں رہی۔ اب بی بی کے لاہور اچانک چلے جانے سے شاید انکی پوزیشن اور کمزور ہو جائیگی۔ حالت تو بیرسٹر گوہر‘ اسد قیصر ، شبلی فرازاور دوسرے رہنماﺅں کی بھی زیادہ اچھی نہیں‘ وہ بھی نوکری بچانے کے چکروں میں ہیں۔ علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو بھی ان پر بھروسہ نہیں رہا۔ معلوم نہیں بشریٰ بی بی اور کپتان کی دونوں بہنیں اب کی گئی ڈھیل یا ڈیل کی پاسداری کریں گی یا بانی کے حکم پر عمل کریں گی جو وہ کہیں گے۔ بیگم صاحبہ کی لاہور آمد سے لگتا ہے کہ اب شاید پارٹی میں پنجاب کے راندہ درگاہ بھولے بسرے رہنماﺅں کی بھی سنی جائیگی اور انہیں بھی آگے لانے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ یوں شاید یاسمین راشد جیسی بزرگ رہنماءکی بھی رہائی ممکن ہوسکے اور انہیں اس ابتلا سے نجات مل پائے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی بیوگی کا بھی خاتمہ ہو۔
اسرائیل غزہ سے فوج نکالنےاور جنگ بندی پر تیار ہوگیا۔ اسرائیلی میڈیا۔
اسرائیلی میڈیا پر جاری اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور لبنان کی حزب اللہ کی اسرائیل کیخلاف کارروائیوں سے اسرائیل کو جو نقصان ہو رہا ہے۔اس سے ان کی عقل ٹھکانے آنے لگی ہے۔ اب وہاں کی حکومت اور فوجی ذرائع اس سے پریشان ہونے لگے ہیں۔ انکے حوصلے جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر سے اسرائیل پر جو تھوتھو ہو رہی ہے‘ وہ اپنی جگہ۔ اسرائیل کے اتحادی اسے عسکری مال و امداد دینے والے ممالک جن میں امریکہ‘ برطانیہ فرانس وغیرہ سرفہرست ہیں فلسطینیوں کی شدید مزاحمت سے پریشان ہیں۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد اسرائیل کے مضالم کیخلاف روزانہ احتجاج کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں خود اسرائیل میں آئے روز وہاں کی حکومت کیخلاف ہزاروں شہری احتجاج کرتے نظر آتے ہیں جو فلسطینیوں کے قتل عام‘ غزہ کی بربادی عالمی ملامت اور اسرائیلی شہریوں کی ہلاکتوں پر نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف ہیں۔ سب اس جنگ کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ اب لگتا ہے اس بین الاقوامی اور ملکی دباﺅ کی وجہ سے نیتن یاہو کی حکومت پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ وہ لبنان سے اور غزہ سے فوجیں واپس بلانے کی بات کرنے لگی ہے۔ یہ تو،
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
والا معاملہ ہے۔ ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرکے‘کئی شہروں کو کھنڈر بنا کر اب اسرائیل اگر جنگ بندی کرتا بھی ہے تو کیا اسکے مظالم کا مداوا ہو سکتا ہے۔ شہید ہونے والے واپس آسکتے ہیں‘ انکے تباہ شدہ گھر دوبارہ آباد ہو سکتے ہیں‘ اس سارے عرصہ میں مسلم امہ نے البتہ یکجہتی کا بھرپور اور بے مثال مظاہرہ کیا‘ کسی نے بھی اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا راستہ اختیار نہیں کیا اور محض دعا?ں میں اسکی تباہی و بربادی پر زور دیا۔ یعنی خود کرنے والا کام بھی خدا پر چھوڑ دیا کہ وہ جارح اسرائیل کو برباد کرے‘ ہم سے تو کچھ ہونا نہیں۔ فلسطینی کیا سوچتے ہونگے کہ یہ ہماری امت مسلمہ ہے یاامت مرحومہ۔
الیکشن مباحثے میں ٹرمپ اور کمیلا کے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے۔
اگلے ماہ نومبر میں امریکی صدارتی الیکشن ہیں۔ پورے ملک میں ہاتھی اور گدھے کےچاہنے والے دن رات اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں اپنی اپنی پارٹی کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے سربراہ‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور کمیلا ہیرس کے درمیان ٹی وی پر مباحثے بھی آخری مرحلے میں ہیں۔ انتخابی سروے بھی آئے روز بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ٹرمپ آگے نظر آتے ہیں‘ کبھی کمیلا آگے جا رہی ہوتی ہیں۔ اب گزشتہ روز کے انتخابی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کمیلا کو 50 اور ٹرمپ کو 47 فیصد عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس سے پچھلے سروے میں ایسی ہی صورتحال کمیلا کی تھی اور ٹرمپ آگے تھے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں امریکی صدارتی الیکشن پر ہیں‘ اس لئے نہیں کہ گدھا جیتے گا یا ہاتھی بلکہ اس لئے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کی وجہ سے امریکہ کو جو خفت اٹھانا پڑ رہی ہے‘ اس کے اتحادی اور تمام مسلم ممالک اس سے ناراض نظر آتے ہیں۔ خود امریکہ میں مقیم مسلم ووٹر پریشان ہیں کہ کس کو ووٹ دیں کیونکہ مسلم دشمنی اور اسرائیل کی حمایت میں اگر ٹرمپ نہلا ہیں تو کمیلا ہیرس دہلا۔ دونوں میں سے کوئی بھی مسلم امہ کا حقیقی خیرخواہ نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگ ٹرمپ کو اور کچھ کمیلا کو ووٹ دینے کا سوچ رہے ہیں۔ جبکہ ایک بڑا طبقہ ووٹ ڈالنے سے گریز کی سوچ رہا ہے۔ لیکن امریکیوں کے پاس یہی دو آپشن ہیں‘ ایک ہاتھی دوسرا گدھا۔ یا پھر وہ بھی گھروں میں بیٹھے رہیں اور ووٹ ڈالنے نہ نکلیں مگر ایسا بہت کم ہو گا کیونکہ زبردست گرما گرم انتخابی ماحول سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ کمیلا نے ٹرمپ کو گزشتہ دنوں فاترالعقل کہہ دیا۔ اسکے جواب میں ٹرمپ نے کمیلا کو حکومت سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم قرار دیا ہے۔