پی ٹی آئی کے مرد و خواتین کارکنوں کی جانب سے گزشتہ روز لندن میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ انتہاءدرجے کی بدتمیزی کی گئی۔ انکی گاڑی پر حملہ کرکے مکے برسائے گئے اور انکے خلاف عامیانہ زبان میں نعرے بازی کی گئی۔ جسٹس فائز عیسیٰ برطانوی لاءکالج مڈل ٹمپل میں مدعو تھے جہاں انکے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس تقریب کے دوران ہی لندن میں مقیم پی ٹی آئی کے کارکن زلفی بخاری اور ملیکہ بخاری کی قیادت میں کثیر تعداد میں کالج کے باہر جمع ہو گئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ تقریب کے اختتام پر جب قاضی فائز عیسیٰ کالج سے باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے انہیں گھیر کر انکے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ گئے تو ان کارکنوں نے انکی گاڑی پر دھاوا بول دیا اور گاڑی پر مکے‘ جوتے برسانے لگے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو بچانے کیلئے اپنا سر نیچا کرلیا جبکہ گاڑی کے ڈرائیور نے بمشکل تمام گاڑی کو اس بپھرے ہجوم سے نکالا۔ اس حملے کے دوران پاکستان ہائی کمیشن کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا۔ اس مظاہرے کے دوران پی ٹی آئی کے عہدیداروں زلفی بخاری‘ ملیکہ بخاری‘ اظہر مشوانی اور دوسرے کارکنوں نے مظاہرین سے خطاب بھی کیا۔ پاکستانی ہائی کمیشن لندن نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیلئے برطانوی وزیر خارجہ کو باضابطہ مراسلہ بھجوا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ برطانوی انتظامیہ کو پہلے ہی اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آمد پر ایسا واقعہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے سکیورٹی بھی مانگی گئی مگر محافظ فراہم نہیں کئے گئے۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ اپنے قوانین کے تحت ہنگامہ آرائی کرنے والوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائے اور اگر ضروری سمجھا گیا تو پاکستانی ہائی کمیشن کا ڈرائیور برطانوی پولیس کو باضابطہ رپورٹ بھی درج کرا دیگا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حملہ کرنے والے پاکستانی باشندوں کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے نادرا کو حملہ آوروں کی شناخت کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کا حکم دیا اور کہا کہ فوٹیجز کے ذریعے حملہ آوروں کی نشاندہی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کیخلاف قانونی کارروائی کی جائیگی اور انکے شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کئے جائیں گے جبکہ انکی پاکستان کی شہریت منسوخ کرنے کی کارروائی بھی عمل میں لائی جائیگی۔ انکے بقول کسی کو بھی ایسے حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح برطانوی رکن پارلیمنٹ یاسمین قریشی نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف غنڈہ گردی اور انکی گاڑی پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ احتجاج ضرور کریں مگر پرامن رہیں‘ کسی سے گالی گلوچ اور اسے تنگ کرنا غلط روایت ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے 42 سال قبل لندن کی اسی عظیم درس گاہ سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور انکے والد قاضی عیسیٰ بھی مڈل ٹمپل ہی کے گریجویٹ تھے جبکہ انکی صاحبزادی سحر قاضی نے بھی اسی ادارے سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکام کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کو مڈل ٹمپل کالج کی جانب سے رواں سال مئی میں کالج کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اس تقریب میں شرکت کیلئے ہی لندن روانہ ہوئے تھے۔ وہ اس تقریب میں شرکت کیلئے پاکستان ہائی کمیشن کی گاڑی پر آئے تاہم ان کیخلاف ہنگامہ آرائی کو روکنے کیلئے سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا جو پاکستان ہائی کمیشن کی مبینہ غفلت کی نشاندہی کرتا ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں تعینات پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے بانی قائد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اس تناظر میں اس افسوسناک واقعہ کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے جامع تحقیقات ہونی چاہئیں اور پاکستان کے ہائی کمشنر کو بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ یہ واقعہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نہیں‘ برطانیہ میں پاکستان کا تشخص اور ساکھ خراب کرنے کا بھی باعث بنا ہے۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی سیاست میں اپنے مخالفین کیخلاف بدتمیزی کلچر کو فروغ حاصل ہوا جس کیلئے خود عمران خان کی جانب سے پارٹی کارکنوں کو ہلہ شیری دی جاتی رہی اور اس کلچر پر تفاخر کا اظہار کیا جاتا رہا۔ اس کلچر کی ابتداء2011ءمیں عمران خان کے مینار پاکستان کے جلسہ سے ہوئی جس میں عمران خان نے اپنے مخالفین کیلئے چور‘ ڈاکو کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پارٹی کارکنوں کو انکی سرعام بے عزتی اور بدتمیزی کرنے کا راستہ دکھایا۔ اس جلسے کے بعد ہی عمران خان نے اپنے مخالف سیاست دانوں کے علاوہ ریاستی اداروں کے سربراہان بالخصوص فوج‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے سربراہوں کو عامیانہ زبان میں چیلنج کرنا شروع کیا چنانچہ انکے پارٹی ورکرز نے بھی دھرنا تحریک کے دوران یہی چلن اختیار کیا جس سے سیاسی فضا انتہائی مکدر ہوئی اور بلیم گیم کے کلچر کو فروغ حاصل ہوا جس میں خود عمران خان ”اوئے توئے“ کرتے نظر آئے۔
اس بدتمیزی کلچر کے باعث ہی متعدد شخصیات نے چیف الیکشن کمشنر کا منصب قبول کرنے سے معذرت کی جبکہ عمران خان نے اس کلچر کو ہی اپنی عوامی مقبولیت کی علامت سمجھ لیا اور شرف انسانیت کی پاسداری تک کو فراموش کر دیا گیا۔ اسی کلچر کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کے ساتھ بھی لندن میں بدتمیزی کی جاتی رہی جبکہ وزیراعظم میاں شہبازشریف کیخلاف مقدس ترین مقام خانہ کعبہ کے اندر مظاہرے سے بھی گریز نہ کیا گیا جن کیخلاف سعودی حکومت نے کارروائی کا آغاز کیا تو میاں شہبازشریف نے ہی انکی معافی تلافی کرائی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ سال 9 مئی کو کورکمانڈر ہاﺅس لاہور‘ جی ایچ کیو راولپنڈی اور مختلف شہروں میں فوجی تنصیبات پر پی ٹی آئی کارکنوں کے حملے اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی اسی بدتمیزی کلچر ہی کا شاخسانہ تھے جس پر عمران خان نے معذرت تک کرنے سے گریز کیا۔ بے شک شہریوں کو آئین کے تحت اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے مگر اس آزادی کو دوسروں کی آزادی سلب کرکے انکی بے عزتی کرنے اور ان پر باقاعدہ حملہ آور ہونے کی نیت سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بنیاد پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر قانون کے شکنجے میں آئے ہیں اور خود عمران خان بھی اسی مقدمے میں نامزد ہیں۔
یہ کلچر درحقیقت ریاستی‘ انتظامی اداروں سے دھن دھونس کے ذریعے اپنے حق میں فیصلے کرانے کی نیت سے اختیار کیا گیا ہے چنانچہ عدلیہ میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے صادر کرنے والے ججوں کی ستائش میں سوشل میڈیا پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں اور آئین و قانون کے تقاضوں کے تحت انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ پی ٹی آئی کیخلاف آجائے تو فیصلہ صادر کرنے والے جج کی توہین و تحقیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ اسی تناظر میں پی ٹی آئی کے بدتمیزی کلچر کی بھینٹ چڑھے جن کی نہ صرف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی گئی بلکہ اسلام آباد کی ایک بیکری میں انکے ساتھ بدتمیزی بھی کی گئی جبکہ اس وقت انکی اہلیہ بھی انکے ہمراہ تھیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے متذکرہ بیکری سے خریدے گئے ”ڈونٹس“ کو سوشل میڈیا پر قاضی فائز عیسیٰ کیلئے گالی بنا دیا۔ اسکے باوجود قاضی فائز عیسیٰ نے سخت ردعمل کے اظہار کی بجائے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا اور متعلقہ افراد کی نشاندہی ہونے کے باوجود ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی سے بھی گریز کیا۔ لندن کا گذشتہ روز کا واقعہ بادی النظر میں عدلیہ کے دوسرے فاضل ججوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی اور اس کی قیادتطکے خلاف کوئی فیصلہ صادر کیا تو انہیں بھی قاضی فائز عیسیٰ والے حشر کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر پی ٹی آئی نے اس بدتمیزی کلچر کو ہی اپنی سیاست کی بنیاد بنائے رکھا تو اس کا فطری ردعمل انکی مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اسی انداز میں سامنے آسکتا ہے جس سے لامحالہ ملک میں خانہ جنگی کی نوبت آئیگی اور سیاست شجر ممنوعہ بن کر رہ جائیگی۔ اس نوعیت کا ردعمل چند روز قبل لندن میں اس وقت سامنے آبھی چکا ہے جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے میاں نوازشریف کی لندن آمد پر ان کیخلاف نعرے بازی کی اور بدتمیزی کا راستہ اختیار کیا تو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ان پر دھاوا بول دیا۔ بیرون ملک اس نوعیت کے واقعات پاکستان کیلئے کسی نیک نامی کا باعث تو نہیں بن رہے اس لئے ملک کی عزت و توقیر کی خاطر بدتمیزی کلچر سے وابستہ عناصر کیخلاف سخت اور فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ ان عناصر کے ہوش ٹھکانے پر آسکیں بصورت دیگر اس کلچر میں کسی کی بھی عزت اور پگڑی محفوظ نہیں رہے گی۔