صدر ”جو بائیڈن“ نے ”40منٹ“ قطار میں لگ کر انتظار کرنے کے بعد ووٹ کاسٹ کیا۔ دہائی سے زائد عرصہ سے ہماری عادت بنا دی گئی ہے کہ ہم ہر خرابی ۔ حادثہ کا ذِمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں جبکہ خرابی ہماری اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے کِسی بھی حادثہ کی صورت میں ایک لمحہ کا توقف کیے بنا الزام ”امریکہ“ پر دھر دیتے تھے اور ہیں ۔ اِس بحث میں پڑے بغیر کہ دنیا بھر میں جاری ”مسلم کُش“ خوفناک جنگوں میں کلیدی کردار امرکیہ کا ہے مگر یہ بھی تو سوچئیے کہ خود ”مسلم اُمہ“ کہاں کھڑی ہے ؟؟ شہادتیں اگر ہو رہی ہیں تو تمام واقعات کی کڑیاں ملائیں اور تجزیہ کریں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں ۔ پڑھیں ہر ”مُسلم کُشی“ میں مسلمان زعماءکرام کا کردار ”جون“ کے تڑپادینے والے سورج جیسا نظر آئے گا۔ الزام آپ کِسی پر بھی ڈال دیں صاف کہانی کی طرح دِکھائی دے گا کہ ہر مرتبہ کندھے ہمارے استعمال ہوئے ۔ ہمارے وسائل ہمارے ہی خلاف آگ و بارود میں جھونکے گئے۔ ہماری سرزمین پر ہمارے خلاف اڈے بنانے کی اجازت ہم نے بخوشی دی صرف اِس لالچ میں کہ ہم بچ جائیں گے پر اب کی مرتبہ نقشہ بالکل واضح ہو گیا جو بچپن سے سُنتے آئے تھے کہ ”عظیم تر اسرائیل“ بنے گا ۔ اب تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہا کیونکہ یہود و نصاریٰ کے منصوبے مسلمانوں کے ارادوں کی طرح نہیں کہ پل بھر میں بدل جائیں ۔ وہ صدیوں سے ایک ہی منصوبہ پر کام کر رہے ہیں اور ہم ہزاروں منصوبوں کو شروع کرکے ایک بھی مکمل کرنے کی اہلیت ۔طاقت نہیں رکھتے کیونکہ ہماری ”نیت“ میں فتور ہے ۔ ہم سنگین نوعیت تک خوش فہمی کا شکار ہیں ۔ خیر بات ہو رہی تھی امریکی صدر کی کمال برداشت کے ساتھ قانون کی پابندی کے مظاہرہ کی۔ اِدھر ہمارا یہ حال کہ ”آبائی قبروں“ پر بھی ”ریڈ کارپٹ“ میں حاضری کی عادت ۔ سوال یہ ہے کہ مان لیا ”امریکہ“ مسلمانوں کے تمام بُرے حالات کا واحد ذِمہ دار ہے (یہ روایتی الزام لگانے والوں کا وطیرہ ۔ شکوہ ہے ہمارا نہیں) تو اُس امریکہ کے ”صدر“ کے معمول کو تو دیکھیں ۔ دنیا کی طاقتور ترین قوم کا طاقتور ترین شخص ۔ عمر کے حصہ کو ملحوظ رکھیں تو فرض کی ادائیگی کی تحسین کرنا بنتا ہے ہم آئین ۔ قانون کی بجا آوری ۔ پاسداری کے متذکرہ بالا مظاہر کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں ہم اپنے ملک میں خود کی ذات پر پروٹوکول کی قید کیوں نہیں ہٹا دیتے ۔ یہاں تو حالات بھی اب ایسے نہیں رہے کہ ایسے ٹشن پالے جاسکیں ۔
”امریکی انتخابی نقشہ“
امریکہ کی ”7“ اہم ترین ریاستیں جو ”سوئنگ ریاستیں“ کہلاتی ہیں وہاں اصل جنگ لڑی جارہی ہے انتہائی جوش و خروش ہے ۔ الیکشن مہم بڑی تیزی سے بدلتی جا رہی ہے اب تک کی صورتحال میں پلڑا ”ٹرمپ“ کی طرف جُھک رہا ہے ۔ گو الیکشن مہم کے آغاز میں لوگ ”کملا ہیرس“ کے حق میں تھے مگر اب تصویر زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ صنف نازک ہونے کے باوجود متوقع ہمدردی ۔ توجہ حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوپائی ۔ ویسے بھی ”ہیلری کلنٹن“ کی صورت میں عورت کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے پہلے سے۔ ٹرمپ اپنی مد مقابل کی نسبت زیادہ پُر اعتماد ہیں۔ کُھلا ڈلا انداز گفتگو ۔ اپنے ارادوں میں سختی کا عنصر لیے ہوئے ۔ پہلے سے بڑھ کر وہ اپنے حامیوں میں مقبول ہیں ۔ ”ٹرمپ“ کے سپورٹرز بے حد پُر جوش ۔ متوالے جیت کے لیے جان لڑا رہے ہیں ۔ ووٹرز کی حمایت اپنی جگہ اگر ”پاور بروکرز“ کو کھیل اپنے حق میں نظر نہ آیا تو نتائج آغاز والے بھی ہو سکتے ہیں پر یقینی ہے کہ ”ٹرمپ“ ہی اگلے امریکی صدر ہونگے ۔ ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں اُمید ہے ٹرمپ کے پہلے والے دور کی طرح کہ بیرونی دنیا میں امریکی مداخلت کم ہوگی۔
”نیا امریکی صدر اور پاکستان“
ہر قوم ۔ انسان کے اپنے ہاتھوں میں اتنی طاقت ۔ ہمت ہے کہ وہ اپنے حالات کو ہمہ وقت بدل سکتی ہے اگر وہ ٹھان لے ۔ نجانے ہم پاکستانی کیوں امریکی الیکشن سے ڈھیر ساری اُمیدیں ۔ خدشات وابستہ کر لیتے ہیں ۔ اُن کی جیت ۔ ہار کو اپنے مقدر کے ساتھ جوڑ لینے کی عادتِ بد چُھوٹی نہیں۔ ہر گروہ ۔ جماعت دماغ میں بٹھا لیتی ہے کہ فلاں جیتا تو ہمارے حق میں ہوگا فلاں کے ہارنے سے فلاں رخصت ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں لمحہ موجود کی دنیا کُلی طور پر ”پاور بروکرز“ کے کنٹرول میں ہے (پاور بروکرزکی اصطلاح برسوں پہلے اپنے کالمز میں استعمال کی تھی) وہ طاقتیں چند ثانیوں کے واقعات کو نظر میں نہیں رکھتیں ۔ ماضی کے حالات بھی وہ الگ نہیں کرتے ۔ ”ماضی“ 24گھنٹے اُن کی میزوں پر دھرا ہے کیونکہ وہ اُس سے مستقبل کی تصویریں کشید کرتے ہیں جب تک اُن کے مفادات ہم سے۔ اِس خطہ سے جُڑے ہیں ۔ اُن کو مطلوبہ فوائد فراہم ہوتے رہیں گے وہ یہاں ٹکے ہیں ۔ وہ صرف اپنے فوائد کے ساتھ وابستہ ہیں ہم سے نہیں ۔ اُن کی پالیسیاں ”چہروں“ میں نہیں مطلوبہ سہولت کاروں پر مرتکز ہیں اسلئیے کوئی بھی نہ غدار ہے نہ وطن فروش ۔
”پی ٹی آئی“ والے ”ٹرمپ“ کی جیت میں ”عمران خان“ کی رہائی دیکھ رہے ہیں ۔ اِس رائے پر میرا تجزیہ۔ موقف متذکرہ بالا نکات پرہے ۔ویسے بھی قرین قیاس ہے”خان صاحب“ کی رہائی ہونے والی ہے۔تحریک انصاف کے چوٹی کے لیڈرز اِس پہلو پر مکمل یکسو ہیں اور پُر اعتماد انداز میں ”خان صاحب“ کی رہائی کی خبریں دے رہے ہیں ۔ کیا ہوگا یہ تو قانون ہی طے کرے گا۔ تاریخ سبق سیکھنے کے لیے کافی ہے ضروری نہیں تھپڑ کھا کر سیکھا جائے۔ نظام کے اندر رہتے ہوئے نظام کے نقائص دُور کرنے کی جدوجہد احسن ہے۔ قانون کی پابندی کرتے ہوئے قانون کے بلا امتیاز نفاذ کی جنگ دراصل جہاد مثل ہے۔ مار دھاڑ ۔ استعفیٰ در استعفیٰ ۔ بائیکاٹ ۔ دھرنے ۔ احتجاج۔ کیا حاصل ہوا ؟؟ سبھی سیاسی فریقین کو ان پہلوو¿ں پر ایک دن ضرور ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر سوچ بچار کرنی چاہیے ۔ آئین کو مذاق بنانے۔ قانون کو اپنے گھر کی باندی بنانے کی روش ختم کر دیں یہی دیکھ لیں کہ مہذب معاشروں کے لیڈر بھی قانون کے احترام میں گھنٹوں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی تقدیر کو اپنی طاقت ۔ ہمت سے بدل ڈالنے کی ابتداءکریں۔ ہم سدھر گئے تو دنیا بھی ہمارے ساتھ برابری کا اچھا سلوک کرے گی۔ ہر جگہ ہمارا احترام ہوگا اگر ہم خود کو احترام دینے کا آغاز کریں۔