تنقید ایک ایسا مقدس اور اہم کام ہے جس کی حیثیت ایک مضمون سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسا ڈسپلن ہے جسے بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب جا کے کہیں کہیں مشرقی لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ مغربی استعمار اور سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ قوتوں نے دوسرے علوم کی طرح تنقید کو بھی ہدف مقصود (ٹارگٹ اورئینٹڈ ) تھیوریوں کے نرغے میں لے کر کچلنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ دنیا بھر میں علم کو غیر علم میں بدلنے اور سوچ کو نرغے میں لینے کا کام جس مدرس طبقے سے لیا جا رہا ہے وہ بذات ِ خود تجزیاتی سوچ سے محروم ہے اور محض نوکری کرنے ، پیسے کمانے ، ترقی کرنے اور اہمیت حاصل کرنے کے لیے غیر تخلیقی ، غیر تجزیاتی اور غیر تحقیقی کتابیں لکھ کر معیاری اور حقیقی علمی کتابوں کی گنجائش کم کرنے میں لگا رہتا ہے۔ ہمارے لیے مجبوری بن گیا تھا کہ ہم نقاد کی موت کا اعلان کریں اور تخلیقی لوگوں کی طرف اس امید سے دیکھیں کہ وہ میدان ِ تنقید میں آئیں اور اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔
پچھلے کچھ عرصے میں جن دو کتابوں نے میرے جیسے تشنگان ِ علم کے لب ہائے خشک کو جرعہء خیر سے تر کیا ان میں ایک پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی کی تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ، ” جزیات “ ہے اور دوسری ڈاکٹر یونس خیال کی ” خیالات “۔کتاب چوبیس تنقیدی مضامین اور پانچ دیگر تحریروں پر مشتمل ہے جنہیں انہوں نے کالم قرار دیا ہے۔ میری نظر میں خیالات کا عنوان اتنا وسیع اور بلیغ ہے کہ اس کے تحت اگر مصنف کیٹیگرائز نہ بھی کرتے تو اس سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں تھا۔
ڈاکٹر یونس خیال اس لحاظ سے ادراکی تنقیدی دبستان کی بنیادی شرط پر پورے اترتے ہیں کہ وہ ایک تخلیقی آدمی ہونے کے علاوہ بلا کی سماجی دانانی اور اسانی شعور رکھنے والے ادیب ہیں۔ ادب بذات خود ایک عظیم انسانی سماجی فکر و احساس کا سرچشمہ ہے جس کے اندر موجود معاشرتی تعمیر اور خیر کی قوت کا اثر زائل کرنے کے لیے ادبی تھیوریوں جیسے زہریلے انجیکشن لگا کر سماج کو جمالیات اور ادراک سے محروم رکھنے کی سازش جاری رکھی گئی ہے۔ مکر ، فریب اور ریاکاری کی انتہا یہ ہے کہ ان کی سازشی تھیوریوں کو بےنقاب کرنے والی ہر تحقیق ، تنقید اور تجزیے کو سازشی تھیوری قرار دے کر اس کےاثر اوراہمیت کو کم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یونس خیال ایک بھلے مانس اور دھیمے لب و لہجے کےصاحب ِ فکر و احساس شاعر ، ادیب اور نقاد ہونے کے باعث براہ راست ان تھیوریوں سے ٹکرانے کی بجائے اپنی تنقیدی کتاب ” خیالات “ حصہ اول میں ایک متوازی و متبادل نظریے کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور ہر مضمون کے اندر نظریہ سازی کا فریضہ انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ” خیالات “ میں ڈاکٹر یونس خیال میری طرح اس نظام ِ فروغ جہل کو براہ راست چیلنج کرنے کی بجائے اپنے انداز میں اس کا پائیدار تدارک کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
” کسی تخلیق کو بنیاد بنا کر تخلیق کار کی دریافت کا عمل اگر چہ مشکل کام ہے لیکن ہو پائے تو تخلیق کار کے فکری اور نفیساتی جہان تک رسائی کے مراحل آسان ہو جاتے ہیں ۔تخلیق کی پرتیں ، حسی رویے یا حدود کے تعین میں قاری کے نظری زاویے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اچھے تخلیق کار کا عکس کسی نہ کسی طور تخلیقی حسن میں جھلکتا ضرور ہے۔“گویا ہمارے نقاد نے کوئی اعلان کیے بغیر تخلیق کار کو منہا کر کے محض زبان و بیان۔۔۔جسے ناواقفیت یا جہالت کی بنیاد پر متن کہا جا رہا ہے۔۔۔ کو ترجیح دینے کے عمل کو یک جنبش قلم رد کردیا ہے اور تخلیق کار کی دریافت کے عمل کو اس کی تخلیق کی تفہیم کی چابی قرار دیا ہے۔
ادراکی تنقیدی دبستان یہی کہتا ہے کہ نقاد کو قاری اور تخلیق کے درمیان ادراکی رشتے استوار کرنے ہیں تاکہ پہلے تو تخلیق کار کو نکال باہر پھینکا جائے اور اس کے بعد کلام اور سخن کو متن کہنے کی عادت کا مریض بن کر تخلیقی کام کی تاثیر اور برکت کے احساس کو کھرچ ڈالا جائے۔
ڈاکٹر یونس خیال تخلیق ، تنقید اور تحقیق کے اس تمام عمل کو نہ صرف ادبی ریاضت کا نام دیتے ہیں بلکہ اس کا مقصد بھی واضح کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔۔
” ادبی ریاضت کا مقصود اس شاندار تخلیقی لمحے تک رسائی ہونا چاہیے جب تخلیق اور تخلیق کار ایک دوسرے کو دیکھنے اور پہچاننے کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ اور ہاں، اگر باہم مکالمے کی کوئی صورت نکل پائےتو کمال ہو ، اس لمحے کو گرفت میں لینے کی سرشاری ہی تخلیق کار کے لیے اصل داد یا ایوارڈ ہوتے ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کے لیے نقاد کا تخلیقی ہونا ضروری بلکہ ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اگر نقاد تخلیقی عمل سے گزرنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو توممکن ہی نہیں کہ وہ تخلیقی عمل تک رسائی حاصل کرپائے اور اس کی تفہیم کا اہل ثابت ہو سکے۔ یہ وہ عمل ہے جس کی بنیاد پر نقاد اپنی تنقید کے ذریعے تخلیق کار کے تخلیقی عمل میں شریک ہو جاتا ہے۔ گویا نقاد کی صورت میں تخلیق کار کو اگر تخلیقی شریک ِ کار میسر آجائے تو اس کے گلستان تخلیق کی نشو و نما میں ایسی زرخیزی آجائے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ میں تو یہ سوچ کر ہی لطف و سرور کے احساس سے سرشار ہو رہا ہوں کہ وہ کتنا جمالیاتی معاشرہ ہو گا جس میں تخلیق کار ، نقاد اور قاری تخلیقی عمل میں ایک دوسرے کے ساتھ ایک اکائی میں ڈھلتے نظر آئیں۔ نقاد کی ذمہ داری کے خد وخال کو مزید واضح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ۔۔۔
” کسی شاعر کی روح تک رسائی اور لفظوں کے پیچھے جھانکنے کیلئے اسکے عہد ، ذاتی زندگی اور فکری وابستگی کی کھوج ایک نقاد کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہوتی “۔ گویا نقاد کے تخلیق کار کی روح تک رسا?ی حاصل کیے بغیر تنقید اپنا حق ادا ہی نہیں کر سکتی۔
یقین کیجئے آج کے فلتھی سرمایہ دارانہ نظام ، اس کے بنائے گئے نصاب اور بھٹکائے گئے مدرسین کو یہی خوف لاحق ہے کہ اگر معاشرہ ایک دوسرے کے اذہان کی گہری پرتوں اور احساس کا امین ہونے لگ گیا تو انسانوں کے چھینے گئے حقوق ، کیے گئے استحصال اور ان پر مسلط کیا گیا سیاسی ، سماجی اور معاشی جبر ، سب کی قلعی کھ±ل جائیگی۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر ادب کے تمام قارئین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔