ادب کا شہسوار

حرف شناس آنکھوں کیلئے، ذوق کے رنگین آنگن سے، معنی کی تابش سے خود کو روشن قندیل کرنا بہت آسان ہے۔ کیونکہ دل کے کشکول میں سکوں کی جھنکار کا اعزاز جذب وکیف میں ڈوبے لفظوں یا پیرایہ کو حاصل ہے، چھن چھن کی پازیبی صدا یاکنگن کی کلائی سے مل کر صندل سی مہک ہواوں کے دوش کرنا، ادب کو رنگینی جاں کا اِذن بخشتاہے، شوق کی راہداریاں ہمارے ذوق کی مرہون بھی تو ہوتی ہیں۔ہم لکھنے والے اپنے سجادے پہ آسودہ نفس نہیں ہوپاتے کیونکہ ہم نے محبتوں کے چراغ جلا کر رشتوں کومنور کرناہوتا ہے، قرطاس پہ سیاہی کے نقش ونگار، تزئین وآرائش کے محتاج کہاں ہوتے ہیں۔ جس طرح جناب سعید آسی نے اپنے جذبات واحساسات کا اظہار (کلامِ سعید) میں کیا اور انتساب میں لکھاکہ”اپنی شریک حیات ثمینہ سعید کے نام جس نے ہر دکھ سکھ میں یہ نازک اور مقدس رشتہ نبھایا اور امتداد زمانہ میں کبھی مجھے اکیلا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا“۔
جناب سعید آسی مدبر ومعتبر شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے میری ملاقات نوائے وقت کے آفس میں 2011ءمیں ہوئی، میرا پہلا کالم 6جون 2011ءکو نوائے وقت میں چھپا۔ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں جناب سعید آسی سے ملنے ان کے دفتر میں گئی تو بالکل سادہ سی ایک شخصیت سفید شلوار قمیض میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے اور ان کے پیچھے ایک لڑکی کمپیوٹر پہ کام کررہی تھی، پوچھنے پہ پتہ چلاکہ وہ ان کی صاحبزادی شاذیہ سعید ہیں، ہلکی پھلکی گپ شپ بنا چائے کے کپ کے ہی ختم ہوئی، (وہ چائے کا کپ آج بھی جناب سعید آسی پہ ادھارہے) اس کے بعد گاہے بگاہے ملاقات تو رہی مگرمیں نے جناب سعیدآسی کو صرف ہلکا سا مسکراتے ہی دیکھا۔ بے وجہ بات کرنا تو دور وہ ایک بار سلام کا جواب دینے کیلئے ہی سر اٹھاتے اورپھر اپنے کام میں مگن ہوجاتے، اب سمجھ آئی ہے کہ یہ جو مشہور نام اور عمدہ کام اسی وجہ سے ہوجاتے ہیں جوکام کی لگن میں دیوانہ پن دکھاتے ہیں۔
جناب سعیدآسی نے1970ءمیں قلمی سفرکا آغاز کیا،اورآج2024ءمیں بھی علم وادب کی رفعت آثاری ان کی جبیں کو منور اور شاداب کررہی ہے، ادب کی صبا پرور بادِشمیم”کلامِ سعید“مجھ تک پہنچی اور علم دوستی کے استعارے تارے بن کر میرے خیالِ افق پر چمکنے لگے، جناب سعید آسی سے اردو زبان، ادب اور فروغِ حرف ومعنی کے جو خواب دیکھے وہ مختلف نگارشات کی صورت میں تعبیر کے مرحلے طے کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ!
رات کو نیند نہ آئے تو غزل ہوتی ہے
دل کہیں چین نہ پائے توغزل ہوتی ہے
ساتھ ہی فریادکرتے ہیں کہ
دل کی اندھیری نگری میں 
کردے سحر اجالا مولا
بن تیرے بے کس لوگوں کو
دے گا کون سنبھالا مولا
وہ ملکی ترقی واستحکام اور عوام خوشحالی کیلئے گزشتہ 18 برس سے نوائے وقت کے ایڈیٹوریل رائٹر کی حیثیت سے سب کو راہ عمل دکھا اور سکھارہے ہیں، اپنی کوششوں کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کیلئے دعاگوہیں، جس طرح کامیابی کا سفر 1981ءسے نوائے وقت میں سب ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹر تک، رپورٹر سے چیف رپورٹر تک،کالم نگار وتجزیہ نگار اورکئی کتابوں کے مصنف ہونے کا کامیابی کا سفر جاری ہے اسی طرح وہ مجبورو محکوم عوام کو سلطانی جمہور کے ثمرات سے فیض ہونا دیکھنا چاہتے ہیں جوکسی ناکامی کو بھی قبول کرنے کی حمایت نہیں کرتے اوران کایقین ہے کہ!
یقین محکم، عمل پیہم،محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
قانون اور قلم کا رشتہ استوار رکھنے والے ادب کا بھرم رکھنے کے قائل ہیں، صحافیوں کی مختلف تنظیموں کے عہدیدار،متحرک سماجی کارکن، درد دل رکھنے والے جناب سعید آسی کی زندگی اور شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ہر پہلو دوسرے سے جداگانہ ہے مگر روشن اور تابناک ہے، کہیں ایگزیکٹوممبر ہوں یا صدر اور نائب صدر ہوں یا پنجاب یونیورسٹی لاءکالج لاہور کے مجلہ المیزان کے مدیر ہوں، اردواورپنجابی سیکشن سب انہوں نے سنبھال رکھا تھا، ان کے قلم اور زبان سے صداقت اور شجاعت کا پیغام ہی ملتاہے۔انہوں نے ہمیشہ نوجوان نسل کو وہ راستہ دکھایا جسے وہ بھول بیٹھے ہیں اور اپنی زندگی اور فن کو گلیوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر ضائع کررہے ہیں۔جناب سعید آسی کے قلم سے عورت کی حرمت کا پیغام بھی ملتاہے۔ انکی محبت بھرے دل میں مجبور وبے کس لوگوں کیلئے محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظرآتاہے اور انکا قلم سچائی کا پیروکار ہے۔
علامہ عبدالستار عاصم قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل سے ادب اور ادیبوں کی بھرپور خدمت کررہے ہیں جناب سعید آسی کی کتاب ”کلام سعید“بھی انہوں نے بڑی محنت ومحبت سے شائع کی ہے۔ جناب سعید آسی زندگی میں کبھی ناکافی سے نہیں گھبرائے، لکھتے ہیں کہ
یہ انتہائے اناہے یاخامشی کا فسوں
بھٹک بھی جائیں مگر راستہ نہ پوچھیں گے
اس شخص کا کوئی دشمن کیسے ہوسکتاہے جوکہتاہوکہ
دل کی بات ہی کرلیں 
آودوستی کرلیں 
گھرمیں کیوں اندھیراہے
گھرمیں روشنی کرلیں 
جوبھی ظلم کرناہے
آپ کی خوشی، کرلیں 
غم کا بوجھ سہہ جائیں 
اور شاعری کرلیں۔
خاموش طبع جناب سعیدآسی پہ جب رنگ بہار یا حسن کی دلکشی ہونے کا احساس جاگتاہے تولکھتے ہیں کہ
گیت گاو سَکھی،مسکراو سَکھی
یہ المناکیاں بھول جاو سَکھی
قارئین جو شخص مزدوروں کا درد سمجھتاہے وہ اپنے اندر انسانیت کا درد لئے وہ سمندرہے جو بنجر زمین کو بھی سیراب کردیتاہے۔
آج کی صبح کوئی صبح طربناک نہیں 
لوگ کہتے ہیں کہ رونق ہے، مگر خاک نہیں 
آج کے دن تومجھے واہموں نے گھیراہے
آج کے دن تومیرے سامنے اندھیراہے

ای پیپر دی نیشن