پاکستان سوویت افواج کے افغانستان پر قبضہ اور اس کے خلاف افغانیوں کی طرف سے برپا کی گئی مزاحمت کے وقت سے دہشت گردی کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس دور میں دہشت گردی ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بموں کے ذریعے کیے جانیوالی دھماکوں تک محدود تھی۔ دہشت گرد بس اڈوں، ریلوے اسٹیشن، بازار یا پر رونق علاقوں میں بم نصب کرتے اور ان دھماکوں کی وجہ سے درجنوں پاکستانی بچے، بوڑھے، جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ بم نصب کرنے والے دہشت گردوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تو انکشاف ہوا کہ ان کا تعلق بھارت سے ہے جو پاکستان کی مشرقی سرحد کے راستے دھماکا خیز مواد کے ساتھ صوبہ پنجاب و سندھ میں داخل ہوتے۔ تحقیقات میں پکڑے گئے تمام دہشت گرد بھارت کے خفیہ اداروں سے منسلک ثابت ہوئے۔ انکے خلاف مقدمات چلے، سزائیں ہوئیں اور پھر 2008ءمیں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی جیلوں میں سزا کاٹنے والے بھارت کے تمام سرکاری دہشت گردوں کو بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات یا مذاکرات کے آغاز اور باہمی اعتماد سازی کیلئے ایک ایک کر کے رہا کیا جاتا رہا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات تو خوشگوار نہ ہوسکے البتہ اکتوبر 2001ءمیں افغانستان پر امریکا اور نیٹو افواج کے قبضہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے نئے دور کا آغاز ہوا جو ماضی کے ٹائم اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں سے بالکل مختلف اور ایک ایسے بیانیے کے ساتھ برپا کیا گیا تھا جس نے پاکستان کے عوام کو بڑے عرصہ تک بدحواس رکھا کہ کہیں وہ حملہ آوروں کو دہشت گرد قرار دے کر گنہگار تو نہیں ہو رہے؟ کیونکہ دہشت گرد شرعی نظام اور نفاذ اسلام کا نعرہ لگا کر براستہ افغانستان خود کش دھماکوں کی صورت حملہ آور ہوئے تھے۔
دہشت گردوں نے پاکستانی عوام خاص طور پر پشتون علاقوں میں عوام کی دین اسلام سے گہری وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کیلئے اپنے اسلامی بیانیے کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ ابتدا میں ان کا ہدف خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقے رہے۔ قبائلی دشوار گزار علاقوں میں محفوظ ٹھکانے قائم کرنے کے بعد انھوں نے سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کا رخ کیا۔ ابتدا میں خود کش حملوں و دھماکوں میں ان کا ہدف پاک فوج کے مراکز، قافلے اور چوکیاں تھیں۔ پاکستانی عوام کو دھوکا دینے کیلئے انھوں نے اپنا گروہی نام تحریک طالبان پاکستان رکھا ہوا تھا تاکہ انھیں افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے خلاف بر سرِپیکار افغان طالبان کی حمایت یافتہ تنظیم سمجھا جائے۔ اپنے اس مقصد میں دہشت گرد اس حد تک کامیاب ہوئے کہ انکے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے پاک فوج کے افسران وجو انوں کو پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر نے ایک ٹی وی چینل کے براہ راست دکھائے جانے والے ٹاک شو میں شہید تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی دلیل تھی کی تحریک طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم پاکستان میں اسلام اور شرعی نظام کے نفاذ کیلئے حملہ آور ہے حالانکہ اس وقت سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر بہت سے علاقوں سے پکڑے جانیوالے دہشت گردوں سے جب اسلام کے بنیادی ضوابط کے بارے میں سوال کیا جاتا توہ کلمہ طیبہ تک سے نابلد ثابت ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قائم کیمپوں میں پہنچائے جانے پر پہلے ان کی ذہن سازی کی جاتی اور بعد ازاں انھیں خود کا راسلحہ کے استعمال کی تربیت دے کر خود کش دھماکوں اور دہشت گردی کیلئے پاکستان بھیج دیا جاتا۔
2008ءتک پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش دھماکے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ 2009ءمیں ان میں مزید شدت آگئی۔ دہشتگرد انتہائی منظم انداز سے بارود کی بھاری مقدار کے ساتھ خود کش دھماکے کرنے لگے۔ ساتھ ہی خود کش جیکٹ باندھ کر جدید ہتھیاروں کے ساتھ اہم مقامات کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا۔ ایسی ہی ایک کارروائی کیلئے دہشت گردوں نے بروز جمعہ 4 دسمبر 2009ءکو راولپنڈی میں پریڈ گراﺅنڈ مسجد کو جب ہدف بنایا تو پاکستان میں وہ تمام افراد جو تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گرد تنظیم کو ملک میں نفاذ اسلام کے تناظر میں دیکھتے تھے وہ سب دم بخود رہ گئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اسلام کے نام لیوا مساجد پر بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں؟ یہ اپنی نوعیت کی دہشت گردی کی بہت بڑی کارروائی تھی جس میں 4 دہشتگرد ہلکے خود کار ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس وقت مسجد میں داخل ہوئے جب خطیب جمعہ کا خطبہ بیان کر رہے تھے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کردی۔ 2 دہشت گرد جو خود کش جیکٹ باندھے ہوئے تھے مسجد کی دوسری منزل پر چلے گئے اور جہاں انھوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے خواتین اور بچے بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ اس کارروائی میں ڈی جی آرمڈ کور میجر جنرل بلال عمر خان، ایک بریگیڈیئر، دو لیفٹیننٹ کرنل، دو میجر شہید ہوگئے۔ پشاور میں اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم کا جواں سال اکلوتا بیٹا بھی شہید ہونے والوں میں شامل تھا۔ انکے علاوہ خواتین اور بچوں سمیت 40 سے زیادہ افراد شہید اور 80 نمازی زخمی ہوئے جبکہ زخمیوں میں سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل یوسف خان بھی شامل تھے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی کے بعد دہشت گردوں نے ملک کے طول و عرض میں نفاذ اسلام کے اپنے دعوے کو پس پشت ڈالا اور مساجد، اقلیتوں کی عبادت گاہوں، درگاہوں کے علاوہ جنازہ کی نمازوں کو بھی ہدف بنایا جانے لگا۔
بہرحال، یہ پاک فوج کے بہادر افسران وجوانوں کی ملک و قوم کے تحفظ کیلئے اپنی جان نچھاور کرنے اور شہادت پر ان کے کامل ایمان ہی کا نتیجہ ہے کہ دشمن ہر طرح کی کوششوں، سازشوں اور دہشت گردی کی تمام تر کارروائیوں کے باوجود پاک فوج کے حوصلے پست کر نے میں ناکام رہا ہے۔ کوئی ایک دن نہیں گزرتا کہ پاک فوج کے افسران و جوانوں کی دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہادتوں کی خبر منظر عام پر نہ آئی ہو اور اب تو حالت یہ ہے کہ ایک جنٹلمین کیڈٹ نے بھی شہداءکی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ کیڈٹ کالج کاکول سے چھٹیوں پر ضلع لکی مروت میں اپنے شہر آئے ہوئے 19 برس کے عارف اللہ کی شہادت اس وقت ہوئی جب وہ نماز مغرب کی ادائیگی کیلئے مسجد میں موجود تھا۔ دہشت گردوں نے مسجد میں داخل ہو کر فائرنگ کا آغاز کیا تو عارف اللہ نے اپنی جان کی پروا نہیں کی، وہ نہتا تھا اور جانتا تھا کہ وہ مسلح دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود وہ فائرنگ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے گتھم گتھا ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں کو اپنی پڑ گئی۔ اس پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔ زخمی ہونے کے باوجود اس نے ہاتھ آئے دہشت گردوں کو مزید فائرنگ کا موقع نہیں دیا اور شہادت کا رتبہ پاتے ہوئے دیگر بہت سے نمازیوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔