تاریکی پر روشنی کی فتح مبارک

Nov 01, 2024

عبداللہ طارق سہیل

ہندو برادری نے گزشتہ روز دیپاولی (دیوالی) کا تہوار منایا۔ اس روز، بلکہ اس رات بے شمار دیپ جلائے جاتے ہیں اور دوسرے طریقوں سے بھی چراغاں کیا جاتا ہے۔ ہر طرف روشنیاں ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ہندو برادری کو اس موقع پر مبارکباد دی اور دیپاولی کو تاریکی پر روشنی کی فتح کا دن قرار دیا۔ غالباً انہوں نے چراغاں کی مناسبت سے تاریکی پر روشنی کی فتح والی رعایت لفظی سے کام لیا۔ 
یہ دیپ راجکمار ایودھیا شری رام چندر جی کی سری لنکا والے یدھ سے کامیاب واپسی کی خوشی میں جلائے جاتے ہیں۔ راجکمار بعدازاں اوتار، پھر بھگوان قرار دئیے گئے۔ ان کی پتنی سیتا کو جنگل سے لنکا کا راجہ راون اٹھا کر لے گیا تھا۔ رام چندر جی نے اپنے بھائی لکشمن کی مدد سے پیچھا کیا اور راون کو جا لیا۔ جنگ میں راون کو شکست ہوئی اور وہ مارا گیا۔ 
رام جی کی کروکشیتر میں لڑی جانے والی بڑی لڑائی مہا بھارت بڑی حد تک تاریخ کا جزو ہے لیکن لنکا کی لڑائی تاریخ ہے یا اساطیر؟ خیر، اس جنگ میں رام جی کے لشکر میں کل دو آدمی تھے، ایک وہ خود دوسرے ان کے بھائی، باقی سارا لشکر بندروں کا تھا جنیں ہنومان کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف راون اپنے لشکر میں اکیلا آدمی تھا، اس کی ساری فوج بھوت بھکنوں اور راکشتوں پر مشتمل تھی جنہیں بندروں نے مار مار کر فنا کر دیا۔ یہ جنگ لنکا کی سرزمین پر ہوئی تھی اور لنکا اور بھارت کے درمیان سمندری پٹّی ہے جسے عبور کرنے کیلئے بندروں نے بڑی بڑی چٹانیں اور ٹاپو سمندر میں گاڑ دئیے۔ یعنی یہ بندر بہت بڑے تھے اور بہت ہی شکتی شالی، ڈاکو سارر سے بھی بڑے۔ لاکھوں ٹن وزنی ٹاپوئوں سے سمندر پاٹ دیا۔ 
دیپاولی صرف ہندوئوں کا تہوار نہیں ہے، الگ وجوہات کی بنا پر سکھوں اور جین مذہب والے بھی یہ تہوار، اسی طرح سے روشنیاں کر کے مناتے ہیں۔ جین اس لئے کہ اس روز ان کے گرو مہابیر کو بندی خانے سے رہائی ملی تھی۔ اور سکھ اس لئے کہ اس روز ان کے گرد ہرگوند جی کو مغلوں نے رہا کر دیا تھا۔ 
_____
اس جنگ میں رام جی کو فتح ملی لیکن سیتا دیوی کے ساتھ کیا ہوا۔۔ اسے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ پاک دامن ہے، اگنی پرکھشا دینا پڑی یعنی آگ میں سے گزرنا پڑا۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر راون نے سیتا سے زبردستی کر ڈالی ہوتی تو بھی سیتا بے قصور تھی۔ پھر اگنی پرکھشا کیوں کی گئی۔ 
برصغیر ہندو پاک کی عورت تب سے اگنی پرکھشا (پرکشا) سے بندھی ہوئی ہے۔ اس پر الزام ہو یا نہ ہو، یہ امتحان اسے دینا ہی پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں جینی عورتیں ہر سال زندہ جلائی جاتی ہیں، ان کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ صرف برصغیر میں جلایا جاتا ہے۔ 
تیزاب بھی آگ ہے۔ دنیا میں تیزاب سے جلائی جانے والی عورتوں کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان اور بھارت کی عورتوں کی ہے۔ زندہ دفن کر دیا جانا اگنی پرکشا سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتا لیکن اس کام میں بھی ہندوستان اور پاکستان دنیا بھر میں سب سے آگے ہیں۔ 
بھارت دیوالی منانے والوں کا ملک ہے، پاکستان عید منانے والوں کا لیکن اگنی پرکشا کے معاملے میں دونوں ملک ایک پیج پر ہیں۔ یعنی یہ مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے۔ نقشے پر دیکھیں تو سری لنکا بھی برصغیر کا حصہ ہے لیکن اس کا معاملہ مختلف ہے۔ یعنی وہاں عورت کو ’’انسان‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ حیران کن بات؛ 
_____
پرویز مشرف کی حکومت کے آخری برس تھے کہ ایک عدالت عالیہ کے جج صاحب کے ریمارکس آئے کہ غیرت کے نام پر قتل قابل گرفت نہیں۔ اس پر اپنے دور کے سب سے بڑے کالم نویس عباس اطہر مرحوم نے، جو تب نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے، کالم لکھا اور غیر فاضل جج کی اس یادہ گوئی پر مناسب الفاظ میں گرفت کی۔ 
مرحوم عباس اطہر کی یاد موضوع کی مناسبت سے آ گئی۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ کیا کسی منصف نے ایسے ریمارکس بھی دئیے کہ غیرت کے نام پر عورت بھی اپنے شوہر، بھائی وغیرہ کو قتل کر سکتی ہے؟۔
مرد کو برصغیر کے معاشرے میں ایسے کسی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہی نہیں۔ ہاں، عورت چاہے تو کچھ روکر، کچھ گا کر، التجا اور فریاد کے انداز میں اتنا ضرور پوچھ سکتی ہے کہ ع: 
چن کتھاں گزاری آئی رات وے۔ 
اور بس، اس سے زیادہ سوچنے کی تو اجازت ہی نہیں ہے۔ 
یہاں ایک مفتی صاحب ٹک ٹاکر بھی ہیں اور یو ٹیوبر بھی۔ منبر پر بیٹھ کر اپنے عقیدت مندوں کو ’’انٹرٹین‘‘ کرنے میں بہت شہرت اور مہارت رکھتے ہیں۔ ایک بار انہیں یوٹیوب پر یہ کہتے ہوا سنا کہ عورت مرد کو تنگ کرے تو شریعت میں علاج ہے، اسے طلاق دے ڈالو، نئی شادی کر لو یا اسے طلاق نہ دو، بس سوتن لے آئو۔ 
مفتی صاحب دیپاولی پر کتنے کتنے دیپ جلاتے ہیں، یہ معلوم نہیں۔ 
_____
تاریکی پر روشنی کی فتح کا باب بند کرتے ہیں، یوٹیوب کا ذکر کرتے ہیں۔ یوٹیوب پر ایک جنگ عظیم چل رہی ہے۔ ہر مکتب فکر کے مولویان کرام آپ کو یوٹیوب پر چنگھاڑتے گرجتے دھاڑتے ملیں گے۔ سب کا ہدفِ مشترک ایک ہی ہے، انجینئر مرزا محمد علی۔ 
مرزا محمد علی غلط کہتا ہے، یا صحیح، اس فیصلے کا مجاز کوئی عالم ہی ہو سکتا ہے لیکن ہم جیسے تماشائی ایک بات نوٹ ضرور کرتے ہیں۔ انجینئر حوالے لاتا ہے اور مولویان کرام کی فوج جواب میں ناقابل اشاعت، ناقابل سماعت فحش اور عریاں گالیوں، بددعائوں اور کوسنوں کا طومار کھولتی ہے۔ 
حوالے غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اگلے جوکچھ لکھ گئے، سب کا سب صحیح نہیں ہو سکتا۔ سب صحیح ہوتے تو اتنے فرقے، اتنے مکاتب فکر، مکتب فکر در مکتب فکر یوں ہوتے۔ لازم ہے کہ غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ 
مولویان کرام کے اس حوالے نہیں، صرف کالیاں… ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا مطالعہ نہیں ہے اور مطالعہ کیوں نہیں ہے؟۔ اس لئے کہ ہر مکتب فکر کے مدرسوں میں صرف اپنے بزرگوں کی کتب پڑھائی جاتی ہیں اور دوسرے مطالعے سے روکا جاتا ہے، اسے گنا کبیرہ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک کی آیات کو بزرگوں کے ملفوظات پر پرکھا جاتا ہے۔ ملفوظات تو غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ اور ان کی موجودگی میں کسی اور چیز کی ضرورت بھی نہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ مولویان کرام کی اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ کس معاملے پر قرآن پاک میں کیا لکھا ہے۔ 
اور ایک مولوی صاحب کو تو میں نے خود یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگو، قیامت کی نشانی ہے کہ لوگ جورو کے غلام بنتے جا رہے ہیں حالانکہ بزرگ کہہ گئے کہ عورت پائوں کی جوتی ہے، جب چاہو بدل ڈالو،…
اسلام نہیں، یہ کئی ہزار برس سے چلے آنے والے غیر تحریری مذہب کی تعلیمات ہیں کہ غیرت کے نام پر بیٹی اور بہن کو ہی نہیں، بھانجی اور بھتیجی کو بھی مار ڈالو۔ بہرحال ، تاریکی پر روشنی کی فتح مبارک۔

مزیدخبریں