پیر طریقت قاضی محمد فضل رسول حیدر رضویؒ

Nov 01, 2024

فیض رسول حیدر رضوی 
کچھ ایسے لوگ دنیا میں آتے ہیں جو صرف اپنے لیے زندہ نہیں رہتے وہ پورے معاشرے کے لیے راہبر ہوتے ہیں ۔انہی عظیم لوگوں  لوگوں میں سے ایک عظیم شخصیت پیر طریقت رہبر شریعت الحاج قاضی ابو الفیض محمد فضل رسول حیدر رضوی کی ہے۔ شمس المشائخ   فضل رسول کا معروف نام قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی ہے ۔آپ کی ولادت بریلی میں  رمضان مبارک میں ہوئی ۔ جہاں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین وملت  امام احمد رضا خان بریلوی کا چہار سو فیضان ہے۔مروجہ اسلامی طریقہ کے مطابق چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میںآپ کی رسم بسم اللہ ادا  کی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت آپ اپنے والد گرامی کے ساتھ ہجرت کرکے سارو کی (گوجر انوالہ ) میں قیام پذیر ہوئے اور پھر حضور مفتی اعظم ہند شہزاد ہ اعلیٰ حضرت، حضرت مولانا مصطفے' رضا خان نے جب حضور محدث اعظم کو بذریعہ خط "لائلپور ‘‘ کا اشارہ فرمایا تو پورا خاندان سارو کی سے ہجرت کر کے لائلپور قیام پذیر ہوا۔
شیخ طریقت حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی نے سکول کی ابتدائی تعلیم پاکستان ماڈل ہائی سکول لائلپور سے حاصل کی۔ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم آپ نے استاذ القراء قاری علی احمد رو ہتکی علیہ الرحمہ سے جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائلپور میں حاصل کی اور وہیں ابتدائی کتب علامہ مولانا سید منصور حسین شاہ صاحب فاضل بریلی شریف مولانا حافظ احسان الحق صاحب، مولانا حاجی محمد حنیف صاحب اور مولانا مفتی محمد نواب الدین صاحب سے پڑھیں۔اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے حضرت محدث اعظم پاکستان کے ارشاد پر لاہور تشریف لے گئے اور معقول و منقول کی دیگر کتب شارح بخاری شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی سے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں پڑھیں۔
اجازت و خلافت:
1381 ہجری 1961ء میں عرس اعلیٰ حضرت کے موقعہ پر آپ کو حضرت محدث اعظم پاکستان نے پاکستان بھر سے تشریف لائے جید علماء و مشائخ کی موجودگی میں جمیع سلاسل طریقت کی خلافت عطا فرمائی اور دستار سجادگی سے سر فراز فرمایا اور سجادہ نشین مقرر فرمایا۔ 1961ء  ہی میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام کے منعقدہ سالانہ جلسہ دستار فضیلت کے موقعہ پر اپ کو دستار فضیلت عطا کی گئی ۔حضور محدث اعظم نے اپنی زندگی ہی میں دستار سجاد گی سے قبلہ پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی کو سر فراز فرما کر سلاسل طریقت کی اجازت سے مشرف فرمایا  اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام و سنی رضوی جامع مسجد کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سونپی۔  نوجوانی میں ہی آپ نے بعض نامساعد حالات اور بعض لوگوں کے ناپسندیدہ اعمال کے باوجود سینہ سپر ہو کر ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا۔تاریخ گواہ ہے کہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام حضور قبلہ پیر صاحب کی سر براہی  میں اسی اوج ثریا پر فائز رہا جو حضور محدث اعظم پاکستان کے دور میں تھا۔آپ نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے صاحبزادے پیر طریقت قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی کو چاروں سلاسل میں طریقت کی اجازت عطا فرمائی اور تاج الفتح جو کہ حضور حجت الاسلام نے حضور محدث اعظم پاکستان کو عطا فرمایا تھا زیب سر کرتے ہوئے جید اکابر علماء کی موجودگی میں اپنا جانشین مقرر فرمایا۔سنی رضوی جامع مسجد اور آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کی پر شکوہ خوبصورت اور شاندار عمارات کی تعمیر آپ کا سنہری کارنامہ ہے۔عظیم الشان پر شکوہ اسلامک یونیورسٹی ’’جامعہ محدث اعظم ‘‘ جو کہ تقریباً 25 ایکڑ پہ محیط ہے رضا نگر میں چنیوٹ کے قریب تعمیر کی گئی ہے وہ قبلہ پیر صاحب کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ جب سنی مدارس کی نمائندہ تنظیم قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو قبلہ پیر صاحب نے غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کا ظمی علامہ ابو البرکات سید احمد قادری علامہ مولانا مفتی محمد حسین نعیمی اور علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی  و دیگر اکابرین کے ساتھ مل کر تنظیم المدارس کی تشکیل کی۔دینی و مذہبی خدمات انجام دیتے  ہوئے  آپ نے جمعیت علماء پاکستان کے جمود کو ختم کیا اور مولانا مفتی محمد حسین نعیمی ، مولانا عبد النبی کو کب ، مولانا مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی ، مولانا عبد الحمید بدیانوی کے ہمراہ ہی میں جمیعت علماء پاکستان کو فعال بنایا۔آپ نے  1974ء  میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میں تحریک کے بانی کی حیثیت سے کام کیا۔ دنیائے سنیت کا یہ ماہتاب 29 ربیع الثانی 1442ء  بمطابق 14 نومبر 2020ء کو رات نو بجکر چالیس منٹ پر اہل سنت کو یتیم کر گیا۔ لاکھوں عشاقانِ محدث اعظم و جانشین محدث اعظم نے جنازہ میں شرکت کر کے اس خانوادہ سے اپنی لازوال محبت کا ثبوت دیا۔ 

مزیدخبریں