عالمی تبلیغی اجتماع رائے ونڈ میں قافلوں کی آمد

 مولانا مجیب الرحمن انقلابی
آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس ہیںکاندھلوی جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔۔۔۔۔پوری دنیا میں تبلیغی جماعت جس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔
رائونڈ میں منعقد ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع کے حسبِ سابق اس مرتبہ بھی دو سیشن ہونگے پہلا سیشن 31 اکتوبر2024 سے شروع ہوکر 3 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا جبکہ تبلغی اجتماع کا دوسرا سیشن 7 نومبرکو عصر کی نماز سے شروع ہوکر 10 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اور آخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔
زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے آج پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے اللہ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ گرد آلود کرتے ہوئے امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو۔ 
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ جہاں اس خاندان کے مردوں میں جذبہ جہاد، تقویٰ ونیکی، دین کی اشاعت و ترویج کا عام رواج تھا وہاں ان کی عورتیں بھی دینداری، عبادت گزاری، شب بیداری اور ذکر و تلاوت میں پیچھے نہ تھیں بلکہ اس خاندان کی عورتوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کے مطالعہ کی عام عادت تھی۔آپ کے والد مولانا محمد اسماعیل ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔
آپ نے جہاں ایک طرف اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن جیسے مجاہد عالم دین اور دیگر نامور علماء سے علم دین حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ؐ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے۔حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ۔ جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہ نے آپ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟ صرف آپ کی اہلیہ محترمہ ہی نہیں بلکہ آپ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا۔  بالآخر جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے‘‘۔اور پھر مولانا محمد الیاس خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔۔۔ اور جب لوگوں نے آپ کی حسب خواہش آپ کی آواز پر ’’لبیک‘‘ نہ کہا تو آپ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔۔۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت  سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداء میں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاؤں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاس کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔
حضرت مولانا الیاس کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میرا مدعا کوئی پاتا نہیں‘‘ لوگ سمجھتے ہیںیہ’’تحریکِ صلوٰۃ‘‘ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورؐ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین کرنا گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت سمجھی جاتی ہے۔    
مولانا الیاس نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور اصول کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی  وضع کئے  جس کا مقصد دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھنا اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا ہے۔ مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاس فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطہ جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در در پر دستک دینے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا پڑتی ہیں ان کے نتیجے میں رحمتِ باری تعالیٰ خاص طور پر متوجہ ہوتی ہے۔ صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاء تک۔گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس کام میں بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائیں تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔
تبلیغی جماعت آج تک دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام میں جان و مال اور وقت لگا کر جس طرح یہ کام پوری دنیا میں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہے۔رائے ونڈ کا ’’عالمی تبلیغی اجتماع‘‘ اور اس میں لاکھوں افراد کی شرکت دنیا بھر کیلئے ایک نظیر ہے۔اتنے بڑے اجتماع کے باوجود یہاں کوئی جھگڑا، فساد، ہنگامہ، گالم گلوچ نظر نہیں آئے گا بلکہ ہر شخص اخلاص و للہیت کا پیکر اور عاجز ی و انکساری کا مجسم نظر آئے گا۔ تبلیغی اجتماع میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب یہاں خاک میں مل جاتے ہیں ۔ عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے مسلمان اصلاح، امت، غلبہ اسلام، خلافت راشدہؓ کے مقدس نظام کے عملی نفاذ، غزہ و فلسطین ،لبنان وکشمیر، برما،عراق، شام، افغانستان وفلسطین، یمن سمیت دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی و کامیابی، حرمین شریفین کے تحفظ،دین وملت کے استحکام کیلئے دُعااور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن