اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ سمیت 12 مقدمات میں اعظم سواتی کی درخواست منظور کرتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے دیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے گزشتہ روز کے غصے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ جج ہمارے سامنے نہیں تھے، مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، جو ہم فیصلے میں نہیں لکھ سکتے، وہ ہمیں عدالت میں بھی نہیں کہنا چاہیے، مجھے اس پر افسوس ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی وضاحت عدالت میں پیش کردی گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بتایا کہ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے مطابق تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا، اگر حتمی طور پر ساڑھے چھ بجے جسمانی ریمانڈ دیا گیا تو پھر کیا غلط ہے؟۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جج کے مطابق 13 مقدمات تھے، اس تمام عمل میں وقت تو لگتا ہے، کیا پراسیکیوشن کا اعظم سواتی کا اب مزید جسمانی ریمانڈ مانگنے کا ارادہ ہے؟۔ پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں اس حوالے سے ابھی کوئی بیان نہیں دے سکتا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ کیا اعظم سواتی اب تمام مقدمات میں گرفتار ہیں؟۔ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ تمام مقدمات میں جسمانی ریمانڈ ہو چکا تو وہ تمام مقدمات میں گرفتار ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایک بندے کا جسمانی ریمانڈ ہوا، ریمانڈ ختم ہونے پر دوسرا ریمانڈ لے لیا گیا، جج کو کہنا چاہیے تھا کہ 5 اکتوبر کا مقدمہ ہے مجھ سے ریمانڈ کیسے مانگ رہے ہیں۔