احمدندیم شیخ
پروفیسر سعید احمد نے اپنی کتاب دی گلگت بلتستان کوننڈرم : ڈائیلیماز آف پولیٹیکلانٹیگریشن میں جموں و کشمیر کے بڑے سیاق و سباق میں گلگت بلتستان کے علاقے کی تاریخی اہمیت کا جائزہ لیا ہے۔ان ?ے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی چار اکائیاں تھیں: صوبہ جموں، صوبہ کشمیر، ضلع گلگت اور ضلع لداخ۔گلگت کی اسٹریٹیجک اہمیت کو تسلیم کرتے ھوے خاص طور پر اس کی چین اور روس کے قریب ہونے کی وجہ س 1877 میں گلگت ایجنسی کا قیام عمل میں آیا، جو کہ برطانوی انتظامیہ کا مرکز تھا اور اس حساس علاقے کی نگرانی کے لئے بنایا گیا تھا۔ بعد میں، 1935 میں، گلگت لیز ایگریمنٹ کے تحت، برطانیہ نے گلگت پر براہ راست کنٹرول سنبھال لیا تاکہ علاقے میں جغرافیائی سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جا سکے، اور یہ اقدام گلگت کی برطانوی دفاعی حکمت عملی میں اہمیت کو ظاہر کرتا تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد، جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں اور ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کے متوقع اختتام کے سبب گلگت کی انتظامی حیثیت میں تبدیلیاں آئیں۔ لیز ایگریمنٹ کے اختتام کے ساتھ، برطانیہ نے گلگت ایجنسی کا کنٹرول واپس کشمیر کے مہاراجہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کنٹرول میں تبدیلی اس وقت کے انتشار آمیز حالات میں آئی، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان آزادی کے قریب تھیاور علاقائی سوالات زیر بحث تھے۔ گلگت ایجنسی کا کنٹرول واپس مہاراجہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ علاقائی حکمرانی کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے، جہاں مقامی آبادی کی مختلف خواہشات اور سیاسی حقائق کا سامنا تھا۔پروفیسر سعید احمد مزید وضاحت کرتے ہیں کہ برطانیہ نے گلگت کی لیز کو یکدم منسوخ کر دیا، یہ واقعہ بھارت اور پاکستان کی آزادی سے صرف دو ہفتے قبل پیش آیا۔ اس غیر متوقع اقدام نے علاقے کو ایک انتظامی تبدیلی کی کیفیت میں ڈال دیا اور اس کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں اضافہ کیا۔ 30 جولائی 1947 کو بریگیڈیئر گنسارا سنگھ کو گلگت میں مہاراجہ کے گورنر کے طور پر تعینات کیا گیا اور ان کا کام مہاراجہ کے کنٹرول کو دوبارہ قائم کرنا تھا۔ یہ صورت حال اس وقت مزید خراب ہوئی جب مقامی لوگوں میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف عدم اطمینان بڑھتا گیا اور وہ پا?ستان ?ے ساتھ الحاق کی خواہش میں تھے۔ نتیجتاً، گلگت سیاسی بے چینی کا مرکز بن گیا، جو بالآخر 1947 میں بغاوت اور علاقے کے سیاسی انضمام کے مشکل سفر کا آغاز ثابت ہوا۔نومبر 1947 کو، گلگت نے ڈوگرا راج کے خلاف ایک بڑی بغاوت دیکھی،جس کے نتیجے میں علاقے میں مہاراجہ کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ میجر براؤن کی کتاب گلگت ریبیلین کے مطابق، اس واقعہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، جو کہ گلگت کی مقامی آبادی کی خواہشات کے خلاف تھا، کیونکہ یہاں کے لوگ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ اس فیصلے نے گلگت کے لوگوں میں بے چینی کو بڑھا دیا،۔ اس کے جواب میں، صوبیدار میجر بابر خان نے گلگت اسکاوٹس اور مقامی باشندوں کی مدد سے ڈوگرہ کنٹرول ختم کرنے کے لئے مزاحمت کی تنظیم سازی کی۔اس بغاوت کا آغازیہاں کے بہادرعوام اور گلگت اسکاوٹس کا بریگیڈیئر گنسارا سنگھ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے پر ہوا، جو گلگت میں مہاراجہ کے مقرر کردہ گورنر تھے۔ سخت مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے، بریگیڈیئر سنگھ نیمسلمان افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کامیابی کے بعد، گلگت کی عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا، جو اس علاقے کے پاکستان کے ساتھ اتحاد کی علامت تھا اور ڈوگرہ حکومت کے خاتمے کا نشان تھا۔ یہ کامیاب بغاوت گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ بن گئی، کیونکہ اس نے برصغیر کی تقسیم کے سیاسی انتشار کے دوران پاکستان کے ساتھ اس علاقے کے قریبی تعلق کی راہیں ہموار کیں۔احمد شجاع پاشا اپنی کتاب مسئلہ کشمیر میں بیان کرتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد کرنل حسن خان نے آپریشن داتاخیل ?و جاری ر?ھتے ہوے ایک بغاوت کا آغاز کیا-31 اکتوبر 1947 کو گلگت اسکاوٹس نے بونجی میں تعینات چھٹی کشمیر انفنٹری کی سکھ یونٹس پر حملہ کیا، جس کا مقصد اس علاقے میں ڈوگرا حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔ آپریشن کے دوران، انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل حمید، جو چھٹی جموں و کشمیر انفنٹری کے کمانڈنگ آفیسر تھے، کو گرفتار کر لیا اور اس طرح بونجی کو ڈوگرا کنٹرول سے آزاد کرا لیا۔ایس کمار مہاجن اپنی کتابڈبی?ل ان بلتستان میں سکردو کیآزادی کے لئے کی جانے والی حکمت عملیوں اور جنگ کا ذکر کرتے ہیں، جو گلگت بغاوت کے بعد شروع ہوئی۔ میجر شیر جنگ تھاپا کو لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر سکردو میں تعینات کیا گیا۔ تاہم، 11 فروری 1948 کو میجر اسلم خان نے اپنی آئیبیکس فورس کے ساتھ اور روندو کے راجہ کی حمایت سے ڈوگرا افواج پر ایک فیصلہ کن حملہ کیا۔ جلد ہی اس آپریشن کو 300 چترال اسکاوٹس کی حمایت حاصل ہوئی، جن کی قیادت پرنس مطاول ملک کر رہے تھے، جس نے سکردو کے محاصرے کو مزید شدید کر دیا اور تھاپا کی افواج پر زبردست دباؤ ڈالا۔ایک طویل اور صبر آزما محاصرے کے بعد، تھاپا کی افواج، جو کہ وسائل اور سامان کی کمی کا شکار تھیں، نے بالآخر 14 اگست 1948 کو ہتھیار ڈال دیے۔ اس فتح کے بعد، کھرپوچو قلعے پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا، جو سکردو کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شامل کرنے کی علامت تھا۔ یہ واقعہ علاقے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، کیونکہ سکردو کا سقوط پاکستان کی گلگت بلتستان کے بڑے علاقے پر کنٹرول کے استحکام کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی اور عسکری تنازعات کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔گلگت' بونجی اور بلتستان کے سقوط کے بعد، گلگت بلتستان کے باقی علاقونں کی آزادی کی کوششیں تیز ہو گئیں اور مقامی افواج نے تین خصوصی گروپوں آئیبیکس فورس میجر احسان خان کی قیادت میں، ٹائیگر فورس کیپٹن حسن خان کی قیادت میں، اور ایسکیمو فورس لیفٹیننٹ شاہ خان کی کمان میں خود کو منظم کیا۔ ان یونٹوں نے ڈوگرہ افواج کو منظم طریقے سے نکالنے کے لئے کارروائیاں کیں اور باقی ماندہ ڈوگرہ کنٹرول علاقوں میں آپریشنز کا آغاز کیا۔ ان کوششوں کا سامنا شدید مزاحمت سے ہوا، لیکن وہ علاقے کی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوے۔اس مہم کے دوران 86 فوجیوں نے آزادی کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ان کی قربانی گلگت بلتستان کی عسکری تاریخ کا ایک سنگ میل بن گئی، جو ان افراد کو ان کی عزم و بہادری کے لئے خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ان کا ورثہ آج بھی زندہ ہے، اور یہ مستقبل کی نسلوں کو آزادی اور خودمختاری کے لئے عزم کی ایک طاقتور مثال فراہم کرتا ہے۔ یہ ہیروز نہ صرف اپنے کارناموں کے لئے یاد رکھے جاتے ہیں بلکہ اس آزادی کی روح کو بھی مجسم کرتے ہیں جو گلگت بلتستان کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے