کوئٹہ/ لندن/ کراچی (آئی این پی+ اے این این+ جی این آئی) وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور طالبان نے کوئٹہ میں ملاعمر کی موجودگی کے امریکی دعوئوں کو مسترد کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ یہ امریکہ کا محض افواہیں پھیلانے کا طریقہ ہے، پاکستان جیسے خودمختار ملک پر ڈرون حملے کرنے کا عمل امریکہ کے لئے اپنے پائوں پر گولی مارنے کے مترادف ہوگا اس سے بلوچستان کے راستے نیٹو اور امریکی افواج کو لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی کا سلسلہ متاثر ہوگا، امریکہ کی جانب سے جارحانہ انداز اپنانے کی صورت میں لوگ اس کے خلاف بندوق ضرور اٹھائیں گے، طالبان ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کریں اور اپنی سوچ و منشور ہم سے دور رکھیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا۔ دریں اثناء بلوچستان کے زیادہ تر قوم پرست جماعتوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں موجود ان طالبان کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئے جو ابھی تک افغانستان میں دہشت گردی کے لئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے ان طالبان کو پاکستان کے خفیہ اداروں کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ صوبے کی مذہبی جماعتوں نے امریکہ کے ان دعوئوں کومستر د کیا ہے کہ طالبان سربراہ ملامحمد عمر سمیت طالبان کی باقی قیادت کوئٹہ میں موجود ہے اور کہا ہے کہ امریکہ بلوچستان کے دینی مدارس کو نشانہ بنانے کیلئے طالبان کا بہانہ تلاش کر رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مر کزی جنرل سیکر ٹری حبیب جالب بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں موجود افغان مہاجرین کے کیمپ طالبان کے محفوظ پناہ گاہیں ہیں‘ جب تک ان افغان مہاجرین کووآپس افغانستان نہیں بھیجا جائے گا اس وقت تک اس خطے میں دہشت گر دی پر قابو پانا ایک مشکل عمل ہوگا۔ حبیب جالب نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ بلوچستان میں ڈرون حملے شروع کرنے سے قبل تمام افغان مہاجرین کونکال دیں اس کے بعد دہشت گردی میں ملوث طالبان کوگرفتار کیا جائے کیونکہ پاکستان کی حکومت اور خفیہ اداروں کودہشت گردی میںملوث طالبان کے تمام ٹھکانے معلوم ہیں۔ دریں اثناء بلوچستان کے وزیراعلیٰ محمد اسلم رئیسانی نے صوبے میں پرانا مجسٹریسی نظام بحال کرنے کی تجویز دیدی۔ اس حوالے سے گذشتہ روز ایک مسودہ وفاقی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی عبدالرزاق تھہیم‘ وزارت داخلہ‘ وزارت قانون اور وزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری کو ارسال کر دیا گیا۔ دریں اثناء طالبان نے اپنے سربراہ ملا عمر کی پاکستان میں موجودگی کے امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ پاکستانی سرزمین پر جاسوس طیاروں کے میزائل حملوں کو وسعت دینے کا جواز پیدا کر رہا ہے۔ طالبان کمانڈر آیت اللہ خان نے افغانستان میں کسی نامعلوم مقام سے برطانوی خبررساں ادارے سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان طالبان کی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے ۔ ملاعمر سمیت دیگر طالبان لیڈر شپ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں افغان طالبان کی شوریٰ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دریں اثناء تجزیہ نگار طلعت مسعود نے کہا ہے کہ امریکہ کی توجہ اب بلوچستان پر ہے‘ وہ طالبان کو بڑا خطرہ سمجھ رہا ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ بلوچستان حساس صوبہ ہے‘ جس میں مختلف ممالک مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں امریکی حملوں سے پاکستان کی خودمختاری پر سوال پیدا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ڈرون حملے ہونے سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہو جائیگا۔ دریں اثناء حسن عسکری نے کہا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کوئٹہ اور بلوچستان میں موجود ہیں۔