میلے کچیلے کپڑے پہنے مزدور گھر کے باہراُگی ہوئی گھاس بھی کاٹتا جارہا تھا اور گنگنا بھی رہا تھا۔میں نے اُسے گھاس کاٹنے کی مزدوری دیتے ہوئے پوچھا۔اتنے خوش کیوں ہوں؟....مہنگائی، لوڈشیڈنگ، ڈینگی،سیلاب جیسے مصائب غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارتے ہوئے اس شخص کی گنگناہٹ نغمے الاپتی ہوئی ندی کی طرح کی تھی ورنہ تو پوری قوم پر ایسا سکوت طاری تھا کہ جسے ہم گویائی پر قادر ہی نہیں رہے تھے اور اک ذرا سا تکلم بھی ہمیں گوارا نہیں رہا تھا۔ اُس نے جواب دیا۔ تصویر اچھی بن گئی ہے اس لئے میں خوش ہوں۔ زندگی کے بوجھ سے دوہری کمر والے اس شخص کو میں نے حیرت سے دیکھا۔تم تصویریں بناتے ہو؟.... نہیں.... میرا مطلب ہے کہ پاکستان کی تصویر اچھی بن گئی ہے۔ ہماری تو خواتین بھی کوہ گراں ثابت ہورہی ہیں۔ وہ خوشی سے مٹھی میں پیسے دبائے چلا گیا اور میں پاکستان کی موجودہ تصویر دیکھنے لگی۔ وزیراعظم گیلانی نے اپنی باہمت اور جوشیلی عوام کے ہاتھوں میں 18 کروڑ برش تھما دئیے تو پھر تصویر کے رنگ کیا ہونگے ؟ اور پھر اٹھارہ کروڑ عوام کے تو دو دو ہاتھ ہیں۔آل پارٹیز کانفرنس میں بھی سب ساتھ ہیں۔ کانفرنس میں جنرل خالد شمیم وائیں اور جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جبکہ ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی تھی۔ نواز شریف نے سیاست سے بالاتر ہوکر متحد ہونے کا عندیہ دیا کہ اگر جارحیت ہوگی تو یہ منظر دنیا کو دکھائی دیگا، ہماری وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ” ایڈونچر کے متحمل نہیں ہوسکتے!۔ جہاں چین اور ایران دوستوں کی صف میں کھڑے ہیں وہاں عمائدین قبائل نے کہا ہے۔” امریکہ کو افغانستان میں شکست دیکر دنیا کو قبائلی عوام کی طاقت بنا دینگے“ جبکہ اس ساری تصویر پر سنہری رنگ کا فریم کھاتے ہوئے اور اس تصویر کے حُسن کو دوبالا کرتے ہوئے ایک شخصیت نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ امریکہ کو الٹی میٹم دیدیں کہ ہم اعلان جنگ کردیں گے۔ کل شام مجھے امریکہ سے فون آیا کہ مجید نظامی صاحب کو بھارت والے ”ایڈیٹرز کانفرنس“ میں بلاناچاہتے ہیںجو کہ اگلے ماہ حیدر آباد میں منعقد ہو رہی ہے تو میں نے کہا کہ” اس ٹینک کا راستہ کیا ہوگا کہ جس پر مجید نظامی بیٹھ کر انڈیا آئیں گے“ جنہوں نے فون کیا وہ مسکرانے لگے۔ مجید نظامی ہی ہیں کہ جو امریکہ کو جنگ کا الٹی میٹم دینے کا کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے ” تین بائی پاس“ والے جسم میں جواں حریت پسند کا دل دھڑکتا ہے۔ انہوں نے توایوب خان کی تعریف کی تو تب جب 65کی جنگ کا ذکر کتاب” جب تک میں زندہ ہوں“ لکھتے ہوئے چھڑا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ” صدر ایوب نے یہ جنگ کلمہ“ پڑھ کر شروع کی تھی کیونکہ یہ ایک قسم کا ” جہاد“ تھا اور اس احساس کی وجہ سے ملک میں کسی جنگی بحران کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کسی جگہ پر لوٹ مار یا ذخیرہ اندوزی کا کوئی تصور نہ تھا۔پوری قوم اس جنگ میں شریک تھی۔لڑاکا جہازوں کی ہوائی جنگ لاہوریے شوق سے دیکھتے تھے کہ جیسے وہ کُشتیاں اور کبڈی دیکھا کرتے تھے۔نئی تصویرمیں قوم ایک پنڈال میں ساتھ تو آبیٹھی ہے تاکہ کُشتیاں اور کبڈی دیکھ سکے۔دراصل امریکہ مسلسل منفی بیان بازی کرکے خطے میں اپنے خلاف نفرت بڑھاتا چلا جارہا ہے۔ابھی تو اچھا ہوا کہ وائٹ ہاﺅس مولن کے الزامات کی توثیق میں آگے نہیں بڑھا۔ورنہ آج ایک مزدور گھر کے باہر اُگی ہوئی فالتو گھاس کاٹتے ہوئے گنگنا رہا ہے کہ آج پاکستان کی نئی تصویر کتنی خوبصورت بن چکی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلانیہ میں یہ فیصلہ کردیا گیا کہ جسے شہباز شریف نے امریکہ کی امداد کے بغیر معاملات چلانے کا اعلان کیا۔ اسی طرح پاکستان کو اب امریکہ کے کشکول میں امریکی امدادکے بغیر چلائیں گے اور اس کیلئے چاہئے ہمارے حکمرانوں کو اپنی زندگی میں شامل اُس آسائش تو کم کرنے کا فیصلہ کرنا پڑے کہ جس کا حوالہ دنیا میں دیا جاتا ہے کہ ایک غریب ملک کے حکمران اس عوام کی نمائندگی نہیں کرتے کہ جن کا عکس پاکستان کی تصویر میں نظر آرہا تھا مگر باعزت زندگی گزارنے کیلئے اب نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت سے باہر آنا ہوگا اور یہ بیداری ہمیں امریکہ کی امداد کے انکار کی طرف لے جائیگی اور پھر امریکہ اس سے زیادہ کیا کریگا کہ ایک بحری بیڑہ سمندر میں لا کھڑا کرے؟ اور طوفان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا عہدو پیماں ہی ہمیں اس انجام کو پہنچائے گا کہ مرگئے تو شہید اور بچ گئے تو کم از کم یہ دنیا ہماری اس ذلت اور رسوائی سے ہٹ کر عظمتوں کے ترانے گانے لگے گی۔ شمع کے گرد طواف کرنے والے پروانے اپنی جان دیکر روشنی کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کی مختصر سی زندگی اُس چھچھوندر کی زندگی سے کہیں بہتر ہوتی ہے کہ جو تاریکی میں اپنی عمر گزار دیتا ہے۔