بھارت وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا دورہ پاکستان کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ کے مطابق 18 اقسام کے ویزے جاری کرنے پر اتفاق ہوا‘ جس کے تحت پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے شہریوں‘ تاجروں‘ صنعتکاروں کیلئے مختلف کیٹگریز میں ویزہ یا پابندیاں آسان کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ پاک بھارت کے درمیان سیکرٹری خارجہ اور وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات اور دونوں ممالک میں ویزے کے اجراءسمیت دیگر امور پر اتفاق تعمیری قدم ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی تو خطہ میں خوشحالی اور ترقی کا عمل شروع ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے تمام راستے کشمیر سے ہو کر جاتے ہیں جب تک اس دیرینہ تنازعہ کشمیر کو عوام کی خواہشات اور امنگوں کی روشنی میں حل نہیں کیا جاتا۔ اس وقت تک دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تعلقات میں بہتری دیرپا ہو سکتی ہے۔ جن ایشوز پر بات چیت ہوئی وہ تمام ایشو ثانوی حیثیت کے حامل ہیں۔ اصل ایشو مسئلہ کشمیر ہے۔ دونوں ممالک کو اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو خود پاکستان بھارت کے درمیان تجارت ہو گی۔ ویزہ پالیسی کامیاب اور دیگر مسائل بھی خودبخود حل ہونگے۔ دونوں ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن کر کے تعلقات بحال کردیں۔ ویزہ پالیسی بنائیں اور تجارت کو بڑھائیں تو محض خام خیالی ہے۔ حقیقت میں جو کام سب سے پہلے ہونا چاہئے بھارت کی ہٹ دھرمی اور رویہ کی وجہ سے نہ ہو سکا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں ترقی کا عمل رکا ہوا ہے۔ بھارت مسلسل دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا چلا آ رہا ہے پاکستان کو مجبوراً دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اسلحہ کی دوڑ کی وجہ سے عوام میں غربت بڑھ رہی ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر کو بھارت اپنے دعوﺅں کے مطابق حل کر لیتا اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا موقع دے دیا جاتا تو دونوں ممالک اپنے دفاعی اخراجات کم کر کے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتے ‘ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اب بھی وقت ہے کہ اصل تنازع کے حل کی طرف توجہ دی جائے۔ بھارت 64 سال سے جاری اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر کے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے ساتھ وعدے کا پاس رکھے طاقت کے بل بوتے پر زمینوں‘ مال و اسباب پر قبضہ کیا جاسکتا ہے لیکن ضمیر نہیں خریدے جا سکتے۔ بھارت کا کشمیر پر قبضہ سراسر غاصبانہ ہے‘ جس کو کشمیریوں نے دل سے قبول نہیں کیا ہمارے حکمران اپنا ماضی بھلا کر آ گے بڑھنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف بھارت وزیر خارجہ تو 2008ءکے سانحہ ممبئی کو بھلانے کیلئے تیار نہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ماضی قریب کے واقعات کو نہیں بھول سکتے نہ ان واقعات کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ ہم 1947ءسے لے کر 2012ءتک کے واقعات 1965ءکی جنگ 1971ء میں سازش کے ذریعہ پاکستان کو دولخت کرنا مقبوضة کشمیر میں 1947ءبلکہ 1989ءسے اب تک 6 لاکھ شہدا کشمیر آبی جارحیت سمھوتہ ایکسپریس میں پرامن لوگوں کو زندہ جلانا‘ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں میں پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیاں جیسے خوفناک واقعات بھلانے پر کیوں مصر ہیں۔ امن کی آشا کی آڑ میں بھارت پر صدقے واری جا رہے ہیں۔ ایک بھارت ہے کہ ممبئی سانحہ کو بھلانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بھارت چالبازی سے وقت گزار رہا ہے۔ وہ پاکستان سے اصل مسئلہ پر مذاکرات کرنے سے گریزاں ہے۔ ہم بھی مسکرا کر ہاں کر دیتے ہیں۔ بھارت سے تجارت خسارے کا سودا ہے بے شک اب حساب کر لیں یا چند سال بعد کر لیں بھارت جب اور جیسے اپنی مرضی سے قدم اٹھاتا ہے اور ہر قدم پاکستان کے مفاد کے خلاف اٹھاتا ہے۔