انتہا پسندی و اعتدال پسندی

Oct 01, 2012

پروفیسر سید اسراربخاری

اکثر بہت سی تعبیروں سے خواب بکھر جاتا ہے اور حقیقت پسندی سے کانٹا بھی نکھر جاتا ہے، انتہا پسندی ہو یا اعتدال پسندی، دونوں کو لفظی طور پر استعمال کیا گیا۔ معنوی لحاظ سے نظر انداز کر دیا گیا۔ زبان کی لغزش کیا کیا آفتیں لاتی ہے اس سے کون بے خبر ہے، انتہا پسندی بعض اوقات انسانی طبیعت میں ودیعت ہوتی ہے لیکن جب اس کو ایک مہم بنا کر کام میں لایا جاتا ہے تو اس کی سمت منفی ہو جاتی ہے اور یہ شر، فساد انتشار کو ہَوا دیتی ہے جبکہ اعتدال پسندی ایک ٹھنڈی سڑک ہے جس کی سطح ہموار اور اس میں کوئی گڑھا نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام دانشوروں، ریفارمروں، پیغمبروں نے درمیانی راستے کو اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ آج کے اس دور میں بھی یہ دنیا قائم ہے اور ڈھونڈنے سے سکون و آشتی کا وجود بھی مل جاتا ہے، اکثر جو قومیں آج انتہا پسندی کی مخالفت ظاہر کرتی ہیں اور صلح صفائی کا پرچم لہراتی ہیں اُن کے اعمال و اقوال سے انتہا پسندی لہو بن کر ٹپکتی ہے۔ سب سے پہلی آواز مغرب یورپ نے ہی اٹھائی کہ دنیا میں انتہا پسندی نہیں ہونی چاہئے اور مذہب کو سیاسی و بین الاقوامی تعلقات میں دخیل نہیں کرنا چاہئے لیکن آج وہی تہذیب و ترقی کے علمبردار سب سے بڑھ کر مذہب پرستی اور اپنی مذہبی بالادستی پر اتر آئے ہیں جس کے نتیجے میں مسلم اُمہ کے شب و روز اداس ہو گئے۔ لاکھوں مار دئیے گئے۔ نو آبادیاتی استعمار نے نیو ورلڈ آرڈر کا روپ دھار لیا اور حیرانی ہے کہ دنیا میں اور بھی کئی مذاہب ہیں لیکن نشانہ صرف اسلام کو بنایا گیا۔ گویا آج کی نام نہاد مہذب دنیا مذہبی دھینگا مشتی میں پڑ گئی اور اپنی انتہا پسندی کو مسلمانوں کے سر تھوپ کر توپ و تفنگ لے کر مسلم ممالک کی جانب چل پڑے۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں مرکزی نکتہ‘ امن‘ صلح‘ آشتی اور بقائے باہمی کے ہے۔ انہوں نے تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کا سبق دیا‘ جبر کا انداز احتیار نہ کیا، دنیا میں رنگ نسل کو بنیاد پر قائم تفرقہ بازی کو ختم کیا اور انہوں نے ہی اللہ کا یہ پیغام عام کیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو، مہذب گفتگو کرو، لیکن اس کا جواب یہود و ہنود اور بالخصوص کلیسا و کنیسا نے یہ دیا کہ مسلم اُمہ کا قتل عام شروع کیا‘ اُس کے لئے ایسے بہانے اور حیلے ڈھونڈے جن کو ان کے اپنے تھنک ٹینکس نے ہدف تنقید بنایا‘ اب یہ جو رسول اللہ کے خلاف گستاخانہ فلم امریکہ میں تیار ہوئی تو امریکی حکومت اور معاشرے کا فرض تھا کہ وہ کم از کم حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات پر ہی عمل کر لیتے اور یہ سوچ لیتے کہ مسلمان حضرت عیسیٰؑ پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ ان کے بنیادی عقیدے کا حصہ ہے لیکن امریکی حکومت نے صاف انکار کر دیا کہ وہ یہ فلم بند نہیں کرے گا اور فلم بنانے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ کیا ڈیڑھ ارب انسانوں کو اذیت دینا اعتدال پسندی ہے یا انتہا پسندی کی ایسی ہولناک صورتحال‘ جو بہرحال آج نہیں تو کل غیرت مند مسلمانوں کے اندر سے ایک ایسی قوت بن کر ابھرے گی کہ دنیا کا جغرافیہ بدل جائے گا کیونکہ اب اس میں شبہ نہیں دیا کہ حق و باطل کی جنگ خود باطل نے شروع کر دی ہے، اب کوئی نہ کوئی فیصلہ کن موڑ سیاست عالم میں آئے گا جن کی خاطر اللہ نے کائنات پیدا کی ان کی بے حرمتی کا بدلہ لینے والا آج کے ان مسلمانوں کا محتاج نہیں، وہ جب اپنا چھانٹا گھمائے گا تو یہ گستاخیاں ایک عذاب بن کر باطل کے ہر فرد کو ڈسیں گی اور وہ جی سکیں گے نہ مر سکیں گے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عشق رسول کا امتحان ہے گزر جائے گا اور یہ جو ان کے بدن سے روحِ محمد نکال دی گئی ہے اس کی جگہ بھی پُر ہو جائے گی، قیادتیں بدل جائیں گی، دنیا جلد ہی نئی کروٹ لینے والی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کا خدا جاگتا اور بیدار ہے وہ مہلت دیتا ہے، رجوع کرنے کی سہولت نوازتا ہے لیکن جب انتہا پسندی ہی چلن بن جائے اور اس کا الزام اسلام پر دھرا جائے تو قوت الہٰیہ متحرک ہو جاتی ہے، پھر کیا ہو گا یہ فلک پیر بتائے گا۔ دولت اور مشین کی طاقت اللہ نے عطا کی اس کا اتنا غلط استعمال کہ خدائی شیڈول میں مداخلت کرنے لگے یہ سنت الٰہیہ کی مخالفت ہے۔ یہود و ہنود اور نصاریٰ ایک عرصے سے یہ سوچ رہے تھے کہ اسلام اور مسلمان کو کیسے ختم کیا جائے اور اسے عضو معطل بنایا جائے اس کے لئے انہوں نے شیطانی اتحاد ثلاثہ بنایا‘ صہیونیت نے اس میں رہنما کردار ادا کیا اور مسلم ممالک کی اپنی ساختہ قیادتیں مسلم اُمہ پر مسلط کرکے‘ مسلمانوں کو صرف احتجاج تک محدود کر دیا اور فرضیت جہاد کو منفی کر دیا کیونکہ جہاد کا حکم تو سربراہ مملکت نے دینا ہوتا ہے‘ چند تنظیموں نے اگر جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت کی تو ساری دنیا میں اپنی پروپیگنڈہ مشین کے ذریعے عام کر دیا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں‘ ان کی تذلیل کے سو سو طریقے ایجاد کر لئے‘ حجاب ہی کو لے لیجئے کہ اس کے خلاف قانون سازی شروع کر دی گئی‘ کیا یہ حجاب اگر مغربی و یورپی معاشرے کا شمار ہوتا تو مسلمان اس پر کوئی قدغن لگاتے‘ خواہ مخواہ پانی گدلا کیا جا رہا ہے۔ اکثر مسلم ممالک مفلس ہیں، اس لئے ڈالرز یورو اور دیگر کرنسیوں نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ آج پاکستان جسے اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا تھا وہ ایک کرپٹ بظاہر وسائل سے محروف اور دو نیم ملک بنا دیا گیا ہے اور یہ بات کہ کراچی اور بلوچستان میں امن کیوں نہیں قائم ہو رہا اس کی وجہ بھی اندر کے وہ غدار ہیں، جو باطل کی گود میں پل رہے ہیں، اب مسلم اُمہ کے پاس اپنی اعتدال پسندی اور وجود برقرار رکھنے کے لئے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی قیادتیں بدلیں اور اس سلسلے میں ستاون اسلامی ممالک کے عوام ایک جسد بن جائیں، اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ مصر، ایران، ترکی اس کی تازہ مثالیں ہیں ہمارے ہاں بھی لوگ پریشان ہیں کہ ووٹ کس کو دیں تو اس کا علاج اگر مصر نے کر لیا ہے، پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ اسلام کا کسی سے کوئی ٹکرا¶ نہیں، نہ ہی مسلمان جنگ و جدل کے حامی ہیں لیکن وہ چین سے جینا چاہتے ہیں اور دولت کی تقسیم کو درست کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے جب تک جاگیر داری، سرداری، وڈیرہ شاہی ختم نہیں کی جاتی یہاں حقیقی نمائندہ قیادت کبھی ابھر کر سامنے نہ آ سکے گی۔ اب آئندہ انتخابات میں بھی کم بُرے کو ووٹ دے کر اس کو ملک کی اصلاح پر مجبور کیا جائے لیکن اس کے لئے عوام کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

مزیدخبریں