وطن عزیز کی خارجہ پالیسی بنانے والی منہ زور بیورو کریسی کئی عشروں بعد بھی روس سے تعلقات بہتر بنانے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے اور بڑے دکھ کی بات ہے کہ جب بھی روس، جو دو دہائیاں قبل سوویت یونین کی شکل میں دو میں سے ایک سپر پاور کی حیثیت رکھتا رہا ہے، پاکستان کی معیشت اور اقتصادی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ نواز عناصر راستے میں حائل ہو جاتے ہیں اور اس طرح ملک و قوم کے ساتھ دشمنی کی مرتکب ہوتی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آزادی سے چند ہی سال بعد نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ایک متوازن خارجہ پالیسی رکھنے والی قوم کی شکل اختیار کرنے کا زریں موقع ملا اور پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی گئی کیونکہ اس سپر پاور کو پاکستان کی جغرافیائی اور سٹرٹیجک اہمیت کا پورا احساس تھا اور اسی احساس کی بنا پر اس نوآزاد ریاست سے نہ صرف سیاسی، سفارتی، اقتصادی، تجارتی اور معاشرتی شعبوں میں روابط استوار کرنے کا موقع ملا بلکہ خود سوویت یونین کے لئے بھی یہ فخر کی بات تھی کہ اسے جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں اپنے پا¶ں جمانے کی ضرورت پیدا ہوتی۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ روسی حکومت نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کے دورے کی دعوت دی تاکہ باہمی روابط استوار کرنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ ابھی اس دعوت نامے کو قبول کرنے کے لئے حکومت پاکستان اس دورے کے انتظامات پر غور کر رہی تھی کہ اچانک دوسری سپر پاور یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے بھی لیاقت علی خان کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت بھیج دی گئی۔ مہذب طریقہ یہی تھا کہ ملک کی بیورو کریسی اپنے وزیراعظم کے دورہ ماسکو کا پروگرام بناتی اور بعد ازاں امریکہ کی دعوت پر کوئی ردعمل ظاہر کرتی لیکن انتہائی دکھ کی بات ہے کہ دفتر خارجہ کے امریکہ نواز حلقوں نے وزیراعظم کو غلط مشورہ دے کر اور انہیں گمراہ کر کے روس کے دورے کا پروگرام منسوخ کرا دیا اور انہیں سب سے پہلے امریکہ جانے پر قائل کر دیا اور اس طرح سوویت یونین سے بدظن کرنے کا کام انجام دیا جس کے نتائج ہمیں آج تک بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ تاہم اب حال ہی میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اسلام آباد تشریف لانے کی دعوت قبول کر لی اور 2 اکتوبر کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ پروگرام یہ تھا کہ روسی صدر نے پاکستان کو سالہا سال کی معاشی بدحالی کی لعنت سے نجات دلانے اور خصوصاً توانائی کے وسائل کے بحران سے بچانے کا مفصل منصوبہ پیش کرنا تھا اور نہ صرف یہ بلکہ ہماری کمزور صنعتی صورتحال کی اصلاح کے لئے سٹیل ملز کو بھی توسیع دینے کے معاہدے کی تیاری کی گئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1960ءکی دہائی میں ایوب حکومت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی درست خارجہ پالیسی ہی کی بدولت سوویت یونین کو پاکستان کی پہلی سٹیل ملز کے قیام کا منصوبہ روبہ عمل لایا گیا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی منسوخی کے نتیجے میں پاکستان اور سوویت یونین کے مابین جو کشیدگی کا ماحول پیدا ہوا، اس کے سائے کئی عشروں تک چھائے رہے اور بھٹو حکومت کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اصلاح احوال کی صورت سامنے نہ آ سکی۔ گزشتہ چند سال سے امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کے بعد عراق اور افغانستان کو ”سبق“ سکھانے کے بہانے پاکستان کو دہشت گردی کے جال میں پھنسانے کا جو طریقہ اختیار کیا اس کے نتیجے میں وطن عزیز کو اقتصادی، سیاسی، سفارتی، معاشرتی اور دیگر تمام شعبوں میں بربادی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو پوری عالمی برادری میں ہماری بدنامی کا باعث بنا۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام تر صورتحال کی وجہ امریکہ کے ہر حکم کے سامنے سر جھکانے ہی کے بعد بنی جس کا خمیازہ ہم مسلسل بھگت رہے ہیں۔ ان حالات کی بہتری کے لئے ہمیں روس کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کے بارے میں امید کی کرن نظر آئی اور نہ صرف روسی صدر نے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کر لی بلکہ فوجی اور سٹرٹیجک روابط کو بھی استوار کرنے کا موقع ملا۔ باخبر ذرائع کا صحیح کہنا ہے کہ صدر پیوٹن نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ 2 اکتوبر سے شروع ہونے والے دورے کے موقع پر پاکستان کی تباہی کا باعث بننے والی دہشت گردی کی روک تھام کے لئے کھل کر امداد اور تعاون کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ یہ بھی طے ہوا کہ ہمارے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ماسکو جا کر روسی فوجی حکام سے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور بدامنی کی لہر پر قابو پانے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔ آرمی چیف کے دورہ ماسکو کا پروگرام تو طے شدہ ہے لیکن صدر پیوٹن کے دورے کی منسوخی کے جو اسباب بتائے جا رہے ہیں ان میں سمجھ تو یہی آ رہا ہے کہ اس افسوسناک فیصلے کے پیچھے ہماری بیورو کریسی کے ان امریکہ نواز اور بھارت نواز حلقوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے چوری چھپے روسی حکومت کو یہ غلط اطلاعات پہنچائیں کہ سکیورٹی کے انتظامات بہت کمزور ہیں اور صدر پیوٹن کے دورہ اسلام آباد سے دونوں ملکوں کا نقصان ہی ہو گا۔ اب اس سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روسی صدر کے دورے کی منسوخی کی سازش امریکہ اور بھارت ہی نے پاکستانی بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ سے کی۔
روسی صدر کا دورہ : امریکہ بھارت سازش؟
Oct 01, 2012