یہ سندھ اسمبلی کا منظرہے، احتجاج کرنے والے تمام اراکین اب سے کچھ دن قبل تک حکومتی بنچوں پربراجمان تھے، ان میں سے بعض وزراء بھی ہیں جونئے بلدیاتی نظام کے خلاف سراپا احتجاج بنے اورحکومت سے علیحدگی اختیارکی۔ اجلاس شروع ہوا تواپوزیشن نشستیں الاٹ نہ ہونے پرفنکشنل لیگ این پی پی اے این پی اورق لیگ ارکان نے احتجاج شروع کردیا، اسپیکرکے ڈائس کے سامنے جمع ہوئے اورپھردھرنا دے دیا،
اسپیکرسندھ اسمبلی نے موقف اختیارکیا کہ جب تک استعفے منظورنہیں ہوتے وزیرکا عہدہ قائم ہے اورکسی وزیرکواپوزیشن کی نشست کیسے دی جاسکتی ہے۔ ابھی یہی بحث وتکراراورہنگامہ آرائی جاری تھی کہ صوبائی وزیرقانون ایازسومروکھڑے ہوئےاورسندھ کا متنازعہ بلدیاتی آرڈیننس اسمبلی میں پیش کردیا۔ بس پھرکیا تھا،،شورشرابہ،،ہنگامہ آرائی،،، اوراپوزیشن کی جانب سے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنے کا آغاز،،،
سات منٹ کے دوران حکومتی ارکان نے پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی منظوری دے دی، اپوزیشن اراکین سندھ دشمن آرڈیننس نامنظوراورسندھ سے غدداری نامنظورکے نعرے لگاتے رہے،
اسپیکرنے آرڈیننس کی منظوری کا اعلان کیااوراپوزیشن اراکین احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض اراکین اسمبلی نے بھی بلدیاتی نظام کی منظوری کے لیے ہونے والے اجلاس میں دانستہ شرکت نہیں کی، اس کارروائی کے بعد سندھ اسمبلی نے گستاخانہ فلم کےخلاف قرارداد منظورکرلی، بعدازاں اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔