اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے اگر اس طرح غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی گئی تو ہر جگہ غیر قانونی کالونیاں بن جائےں گی اور ایک نےا پنڈورا باکس کھلے گا، یہ ریمارکس انہوں نے زرعی فارم کیس میں دیئے۔ اسلام آباد کے زرعی فارمز پر ناجائز تعمیرات اور غیر قانونی کمرشل استعمال سے متعلق مقدمہ کی سماعت اٹارنی جنرل کی استدعا پر دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت اور خود انہوں نے بھی سی ڈی اے حکام کو متعدد مرتبہ تحریری خط لکھے کہ وہ معاملے کا حل تجویز کرے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا عدالت آخری کوشش کرنے کا موقع دے، سی ڈی اے کے نوٹیفکیشن سے سارا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کیلئے حکومت کو قانون سازی بھی کرنا پڑے گی۔ زرعی فارم مالکان کی بڑی تعداد بھی عدالت میں موجود تھی۔ سی ڈی اے وکیل سے عدالت نے کہاکہ زائد تعمیرات کی اجازت سی ڈی اے نے خود دی، اس سلسلے میں جو رعائت دی گئی اس میں قانونی سقم موجود ہیں جبکہ غلطیوں کی درستگی کیلئے 2013میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کا اجراء2004سے کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس طرح تو ہر جگہ غیر قانونی کالونیاں بن جائیں گی جنہیں سی ڈی اے بعد ازاں درست کرتا پھرے گا۔ لیز سی ڈی اے نے دی بعد میں اس کے قواعد میں نرمی کر کے زائد جگہ تعمیر کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ بیشتر فارم مالکان نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی اب کہتے ہیں ہمیں رعائت دی جائے مگر قانون تو سب کیلئے برابر ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ یہ تو مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے مترادف ہے۔ سی ڈی اے وکیل نے تسلیم کیا بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی سی ڈی اے کی جانب سے بھی ہوئی ہے جس نے زرعی مقاصد کیلئے دیئے گئے فارمز پر سوئمنگ پول و دیگر تعمیرات کی اجازت دیدی جس سے یہ فارمز کمرشل مقاصد کیلئے استعمال ہونے لگے اور مالکان نے انہیں کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کرنے والے کیخلاف بلا امتیاز ایکشن لیا جائے قانون سے کوئی بڑا نہیں اگر ہے تو ہمیں بتایا جائے، آخر چیئرمین اتنا بے اختیار کیوں ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کل کو کچھ لوگ حساس علاقے میں اسی طرح بیٹھ جائیں گے پھر ان کو بھی رعائت دے دینا۔ سی ڈی اے وکیل نے دی گئی رعائت واپس لینے کیلئے جاری نوٹفکیشن عدالت میں پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ یہ کام سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کیا جارہا ہے اس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہاکہ عدالت نے ایسا حکم کب دیا، کیا سی ڈی اے کا کوئی قانون نہیں وہ اپنے قانون کے تحت کارروائی کیوں نہیں کرتی، کیا سی ڈی اے عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ یہ تو توہین عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے جبکہ عدالت نے ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں تھا، غلطی آپ کی ہے آپ خود درست کریں۔ عدالت نے کہا نوٹیفکیشن جس میں سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا گیا ہے کو تبدیل کرے۔