اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی سے متعلق اٹھارہ معروضات سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہیں۔ معروضات میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ قتل سے متعلق راضی نامہ کے خاتمے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے، اس فیصلے کی موجودگی میں عدالت کو کسی نئے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت آزادانہ مرضی کی جانچ پڑتال کے لئے اصول اور طریقہ کار وضع کرسکتی ہے۔ راضی نامے میں آزادانہ مرضی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، مجرم کا اعتراف جرم اور پچھتاوے کا اظہار قصاص اور راضی نامے سے مشروط ہے، قتل اور قصاص کے مقدمات کے راضی نامے میں متاثرہ فریق کی آزادانہ مرضی کے کیا معنی ہیں، اس حوالے سے عدالت جائزہ لے سکتی ہے اور قانونی سقم دور کئے جاسکتے ہیں۔ معروضات میں مزید کہا گیاہے کہ راضی نامے کی صورت میں فساد فی الارض کا یقین کرنے کے اصول اور عدالتی طریقہ کار بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ عدالت جائزہ لے سکتی ہے کہ فریقین کے درمیان ہونے والا معاہدہ کسی دباﺅ کے نتیجے میں تو نہیں کیا گیا۔ عدالت غیرت کے مقدمات میں بھی فریقین کی رضامندی کا جائزہ لینے کی مجاز ہے۔