بلوچستان کیلئے پنجاب کی محبت

بلوچستان میں زلزلہ آیا ہے۔ وہاں ہمارے محترم بزرگ نامور صحافی ڈاکٹر مجید نظامی کے دوست فصیح اقبال ہیں۔ وہ بلوچستان کے پاکستانی وکیل ہیں۔ ان سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے شاہد رشید نے بھی رابطہ کیا ہے۔ جو کچھ اب بلوچستان میں کرنا ہے وہاں مقامی رضاکار کریں۔ سیاستدان نہ کریں۔ بلوچ سردار تو کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ وہ بلوچ عوام کے نام پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔ اقتدار کے لئے اپنا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان بلوچ سردار سیاستدان اختر مینگل نے بیان تک ہمدردی کے لئے نہیں دیا۔ وہ الیکشن سے پہلے دبئی سے آئے ہیں۔ صرف بلوچ سیاست کرتے ہیں۔ بگٹی سردار کہاں ہیں؟ شاید نواب اکبر بگٹی ہوتے تو کچھ کرتے۔ بلوچ سردار بلوچستان کے حکمران بھی رہے ہیں مگر کچھ نہیں ہوا۔ اب شریف برادران نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا۔ بلوچ دوستی کو پاکستان دوستی بنانے کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ وہ بھی اب بلوچ سردار بن کے اقتدار کے ایوان سے نکل کر اپنے محلات میں چلے جائیں گے۔
انہوں نے زلزلہ زدگان کے لئے کیا کیا ہے؟ ابھی تک ملبہ اٹھانے والی مشینری متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچی۔ دور دراز کے چھوٹے چھوٹے گاﺅں، بیس پچیس گھروں کی بستیاں اور کچے مکانوں میں رہنے والے غربت کی لکیر سے نیچے کے لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کوئی خیمہ بستی نہیں بنائی گئی بہت سامان آیا ہے۔ مخلص ہمسایہ دوست ملک چین سے سامان آیا ہے۔ مگر وہ متعلقہ لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہا۔ سارا سامان ضلعی ہیڈ کوارٹر آواران میں جمع کیا جا رہا ہے۔ آواران بھی برباد ہو گیا ہے۔ سامان خراب ہو رہا ہے۔ اصل مستحق لوگ صرف انتظار کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں جرگہ نہیں ہوتا۔ وہاں معتبر لوگ ہوتے ہیں ان معتبرین کو اکٹھا کیا جائے اور ان کے ذریعے سامان لوگوں میں تقسیم کیا جائے یہ کام سیاستدانوں اور سرداروں کے ذمے لگایا جائے گا تو غریب اور پسماندہ بلوچ عوام پھر ایک بار محروم رہ جائیں گے۔
وہاں ڈاکٹر نذر جو علیحدگی پسند ہے۔ وہاں پاک فوج کے آنے کا مخالف ہے۔ کوئی امدادی کارروائی نہیں ہونے دیتا۔ اُن سے گذارش ہے کہ اپنی سیاست کو اس وقت تو الگ رکھیں اور لوگوں تک امداد تو جانے دیں۔ ورنہ یہ لوگ مر جائیں گے۔ یہ کوئی سیاست نہیں ہے۔ نہ پاک فوج کے لئے یہ موقعہ ہے کہ وہاں جانے کے لئے کارروائی کرے۔ یہ اچھی بات ہے۔ فوج نے بڑی حکمت اور دردمندی سے کام لیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کچھ تو اپنی کریڈیبلٹی ظاہر کریں۔ اور ایسی فضا بنائیں کہ لوگ دکھوں سے نجات پائیں۔ ان سے اب بھی بڑی امیدیں ہیں۔ ان کا امتحان ہے کہ وہ ایسا ماحول بنائیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں بلوچ عوام سکھ کا سانس لیں۔ انہیں محسوس ہو کہ ہمارا بھی کوئی ہے۔ پاکستان کی محبت اس طریقے سے اُن کے دل میں پیدا کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ غیر سردار ہیں تو بلوچ سرداروں والے کام تو نہ کریں۔
شہباز شریف اور چودھری نثار تک ہمارا سلام پہنچے۔ محترم فصیح اقبال بھی ان کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ صرف اس موقعے پر ڈاکٹر عبدالمالک بھی نظر آئے۔ پنجاب اور پاکستان کی طرف سے بلوچ عوام کو دکھ بھرے وقت میں بہت اچھا پیغام ملا ہے۔ ان کی مدد کی گئی ہے۔ وہاں ایک بلوچ نوجوان نے اپنی تعلیم اور روزگار کی بات کی تو شہباز شریف نے کہا کہ سینکڑوں بلوچ نوجوان بلکہ ہزاروں بلوچ نوجوان پنجاب میں میرے مہمان بنیں۔ میں وہاں سب کی تعلیم کا اہتمام کروں گا۔ سب کو ملازمت دوں گا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کے لئے ہم شہباز شریف کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے بلوچ بھائیوں کے لئے اتنی درمندی سے سوچا۔ یہ پاکستانی سوچ ہے۔ جس کا احساس بلوچستان میں لوگوں کو ہو گا۔ شہباز شریف نے کئی قابل طالب علموں کو اعزاز سے نوازا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے بھی بلوچ نوجوانوں کی تعلیم کے لئے سازگار ماحول قائم کیا ہے انہوں نے اپنے گھر میں بلوچ طالب علموں کے لئے کئی شاندار تقریبات منعقد کی ہیں۔ جہاں مجھے بھی شریک ہونے کا موقعہ ملا۔ بلوچ سٹوڈنٹس سے گپ شپ کر کے بہت اچھا لگا۔ ہمارے لاہور میں ایک بلوچ ڈی سی او نورالامین مینگل کے اعزاز میں بھی ایک تقریب ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی تھی جس میں بلوچ سٹوڈنٹس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نورالامین مینگل کے لئے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز شاعر ادیب ڈاکٹر ندیم گیلانی نے بتایا اب وہ یونان چلے گئے ہیں۔ میرے خیال میں اتنے اچھے آدمی کا کوئی تعلق اختر مینگل سے نہیں ہو گا۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے بلوچستان کے زلزلہ زدگان کے لئے ریلیف فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنی جیب سے ایک لاکھ روپیہ ڈاکٹر رفیق احمد نے پچاس ہزار دیا ہے۔ مخیر حضرات 100۔ شاہراہ قائداعظم پر اپنے عطیات بھجوا سکتے ہیں۔ شاہد رشید نے بتایا کہ 2007 میں بارشوں کی تباہ کاری میں بلوچستان کے لئے جناب فصیح اقبال کی معرفت سامان اور امداد بھجوائی گئی تھی۔ فصیح اقبال بلوچستان نظریہ پاکستان فورم کے سرپرست ہیں۔ وہ بلوچستان اور پاکستان کے لئے ایک ہی دردمندی سے سوچتے ہیں۔ ان کے خیالات سے لاہور میں ہم مستفید ہوتے ہیں۔
ایک بات میرے دل میں آئی ہے۔ اور میں دل کی بات زبان پر ضرور لاتا ہوں۔ جب کشمیر اور صوبہ سرحد میں زلزلہ آیا تھا تو پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ہم نے ثابت کیا کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ کئی لوگوں نے 65ءکی جنگ ستمبر کو یاد کیا جب لوگ چھتوں پر چڑھ کر دشمن کے طیاروں کے ساتھ اپنے طیاروں کی آنکھ مچولی دیکھتے تھے۔ تب ہم زندہ قوم تھے۔ اب بھی ہم زندہ قوم ہیں مگر کچھ شرمندہ بھی ہیں۔ تب کیا تھا اور اب کیا ہے۔ شاید اب ہم بے بس ہو گئے ہیں۔ کچھ بے حس ہو گئے ہیں۔ میڈیا نے ہمیں پریشان کر دیا ہے۔ صرف دکھ دینے والی خبروں نے ہمیں بے بسی اور بے حسی میں دھکیل دیا ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ مگر اب بھی لوگ درد سے بھرے ہوئے ہیں۔ اپنے بلوچ بھائیوں کے لئے پاکستانی سوچ کے ساتھ سوچ رہے ہیں۔ شاہد رشید نے نظامی صاحب کے کہنے پر بلوچستان کے لئے ریلیف فنڈ کا اعلان کر دیا ہے اور بونہی نوائے وقت کے مدیر مجید نظامی کی طرف سے ایک لاکھ روپے کے چیک سے کی ہے۔
اب بھی بلوچ عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب بھی پاکستان کی طرح بے قرار ہے۔ نام نہاد علیحدگی پسند پنجاب کو بھی پاکستان سمجھ کر گالی دیتے ہیں۔ شہباز شریف اور چودھری نثار وہاں پہنچے ہیں وہ پہلے لوگ ہیں جو بلوچ عوام کے دکھ درد میں شریک ہوئے ہیں۔ یہ موقعہ ہے کہ بلوچ عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت کی خوشبو بھر دی جائے۔ بلوچ عوام بلوچ سرداروں سے بالکل مختلف ہیں۔ اُن سے رابطوں کی ضرورت ہے۔ وہ ہماری طرح پاکستانی ہیں۔ علیحدگی پسند اس مصیبت کی گھڑی میں بھی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک پاکستان دوستی کی علامت بن کر چھا جائیں تاکہ پاکستان زندہ باد اور نعرہ¿ تکبیر کی گونج بلوچستان کی فضا میں بکھر بکھر جائے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...