اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ بار کے صدر نصیر احمد کیانی کی جانب سے 2 نجی ٹی وی چینلز کے خلاف کیس کی سماعت پیمرا‘ پاکستان براڈ کاسٹنگ‘ سی پی این ای اور وفاق کے وکیل کو تحریری رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیبل آپریٹرز کو یہ احکامات جاری نہیں کئے تھے کہ کسی نجی ٹی وی چینل کو مخصوص نمبر پر چلایا جائے۔ اخبارات میں شائع کی گئی خبریں بے بنیاد ہیں۔ میڈیا میں عدلیہ اور فوج کے اداروں کیخلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ریٹائرڈ اور موجودہ ججوں کے بارے میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں لیکن پیمرا کے اختیارات کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ لگتا ہے کہ پیمرا سوئی ہوئی ہے یا خواب غفلت میں ہے۔ پیمرا کی جانب سے کوڈ آف کنڈکٹ بھی نظر نہیں آتا۔ عدالت کیلئے تمام نجی ٹی وی چینل ایک جیسے ہیں۔ عدالت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی بڑا ہے یا چھوٹا‘ عدالت قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔ عدلیہ اور آرمی دو آئینی ادارے ہیں جن پر کسی کو کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ عدالتیں اپنا تحفظ کرنا جانتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کی بیوی کے بارے میں پروگرام کئے گئے اور ان کی عزت کو خراب کیا گیا۔ اگر کسی کو کسی کیخلاف کوئی شکایت ہے تو وہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں جا سکتا ہے لیکن عدلیہ اور فوج کے لوگ میڈیا میں آکر اپنا دفاع نہیں کرسکتے۔ عدالتوں کو سب کچھ معلوم ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔ کیوں نہ میڈیا کے لوگوں کے اثاثوں کی انکوائری کیلئے احکامات جاری کئے جائیں وہ لوگ جن کے پاس ایک سائیکل نہیں ہوتی تھی آج بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور پوش سیکٹروں میں ان کی کوٹھیاں ہیں۔