قارئین کرام ! حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم فریضہ ہے جسکی ادئیگی صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض کی گئی ہے جبکہ حج کی ادائیگی میں جمرات کی رمی یعنی تینوں شیاطین کو کنکریاں مارنا انتہائی اہم فرائض میں شامل ہے۔ ماضی میں بھی رمی کے موقع پر عام طور پر بھگدڑکے سبب کچلے جانے پر کافی حجاج شہید ہوتے رہے ہیں جس کی پیش بندی کیلئے سعودی حکومت وقتاً فوقتاً انتظامی اصلاحات کے ذریعے رمی کے راستوں میں بہتری لانے کی مقدور بھر کاوشیں کرتی رہی ہے ۔حتیٰ کہ رمی کیلئے جانے اور واپس آنے کیلئے حجاج کرام کو محفوظ سہولتیں بہم پہنچانے کی غرض سے سعودی حکومت نے علیحدہ علیحدہ راستے بنا دئیے ہیں چنانچہ سانحۂ منیٰ 2015 کے بارے میں مستند غیر جانبدار ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ یہ سانحہ، حجاج کے کچھ حلقوں کی جانب سے رمی کے علیحدہ راستوں کے قوانین کی دانستہ خلاف ورزی کے سبب پیش آیا ۔سعودی میڈیا ذرائع کیمطابق یہ سانحہ ایرانی حجاج کی جانب سے رمی کے بعد واپسی کے متعین راستے کی خلاف ورزی کے سبب پیش آیا جس میں بھیڑ چال کے سبب دیگر ممالک کے حجاج بھی شامل ہوگئے جن کا ٹکرائو واپسی پر افریقی ممالک کے حجاج سے ہوا جس پر بھگدڑ مچی اور سینکڑوں جانیں زندگی سے محروم ہو گئیں ۔ اِس سانحہ کے فوراً بعد ہی ایرانی سپریم مذہبی رہنما آیت اللہ علی خمینائی نے سعودی حکومت سے مبینہ ناقص حج انتظامات کی ذمہ داری قبول کرنے اور مسلم دنیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اِسی حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں حج کے دوران پیش آنیوالے واقعات کو دلخراش قرار دیتے ہوئے اِسکی ذمہ داری سعودی حکومت پر ڈالتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ البتہ سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سانحۂ منیٰ کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور تحقیقات کی روشنی میں منظر عام پر آنیوالے حقائق کو منظر عام پر لایا جائیگا ، لہذا، ایران انسانی غلطیوں پر سیاست کرنے اور متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے بجائے حقائق کا انتظار کرے ۔ مقتدر ذرائع کیمطابق یمن کی خانہ جنگی میں ایرانی مداخلت کے بعد سانحۂ منیٰ پر ایرانی نقطہ نظر ایران اور خلیج کے ملکوں کے درمیان بالخصوص سعودی ایرانی تعلقات میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے ۔
بھگڈر منیٰ میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے والی کسی بھی مذہبی ، سیاسی اور کھیل کی دنیا میں کہیں بھی مچے ، بیشتر معصوم انسانی جانوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے جس کا تعین کبھی بھی حکومتوں کی نااہلی پر نہیں بلکہ انسانی غلطیوں پر ہی کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک حج میں مختلف ممالک کے حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق امور اور نتظامی معاملات کا تعلق ہے خادمین حرمین شریفین کی جانب سے حج کے انتظامات کی بہتری کیلئے قابل قدر کوششیں کی جاتی رہی ہیں جس کی تعریف گذشتہ کئی برسوں سے عازمین حج کررہے ہیں چنانچہ انسانی غلطیوں اور قوانین حج کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار کسی طرح بھی سعودی حکومت کو قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ منیٰ 2015 کے سانحہ کی روشنی میں حاجیوں کو میزبان ملک سے متعلقہ حج انتظامی امور سے باخبر رکھنے کیلئے مہمان ممالک کے حج سے متعلقہ اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے جسے پوری کرتے ہوئے مہمان ممالک کو حاجیوں کی تربیت کا انتظامی امور سے متعلق بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ بھیڑ چال کی بنیاد پر کسی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہونے پائیں جس کی کمی پاکستانی خدام الحجاج کی ناقص تربیت اور حج کی ادائیگی کے موقع پر پاکستانی حجاج کی رہبری کیلئے بھرتی کئے گئے خدام الحجاج کے یکسر غائب ہو جانے سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔
قارئین کرام ، سعودی ایران تعلقات کے حوالے سے مشرق وسطیٰ پہلے ہی یمن کی خانہ جنگی میں حوثی قبائل کو ایرانی حساس اسلحہ اور تربیت کی فراہمی پر جسے سعودی حکومت اپنی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتی ہے ، سیاسی کشیدگی کی لپیٹ میں ہے چنانچہ یہ اَمر اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ سانحۂ منیٰ 2015 کو سیاسی رنگ دینے سے پرہیز کیا جائے ۔ ماضی میں اسلامی فقہی اختلافات کے باوجود سعودی ایران تعلقات بہتری کی جانب گامزن تھے حتیٰ کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بحرین پر ایران کے دعوی کا متنازعہ معاملہ بھی 1961 میں سعودی عرب اور بحرین کے مابین تیل کی دولت میں شراکت کے معاہدے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا ۔ لیکن 1979 میں ایران میں امام خمینی شیعہ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی حجاج کی جانب سے حج کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں حرمین شریفین کی سڑکوں پر سیاسی اجتماعات کے انعقاد کے ذریعے نہ صرف سیاسی نعرہ بازی کی گئی بلکہ ایرانی حکومت کی جانب سے سعودی حکومت کی حرمین شریفین پر کسٹوڈین کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا گیا تھا ۔ ایسی ہی بے حکمت پالیسی کا مظاہرہ ایک مرتبہ پھر ایرانی سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بین الاقوامی اداروں میں سانحۂ منیٰ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ اکتوبر 1992 میں ایک سعودی ممتاز دانشور اور سیکیورٹی امور سے متعلق سعودی حکومت میں معاون وزیر کے طور پر فائز ڈاکٹر سعید ایم بادیب نے ایران سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا:
" As early as 1980, the regime (Ayatollah Khomeini's regime) attempted to discredit Saudi Arabia and its leadership, and to question the capability of the Saudis to provide proper care for the two holy shrines...the Iranian claim that the Kingdom of Saudi Arabia was not capable of managing the two holy shrines' affairs, and that a joint Islamic committee was needed to look after makkah and Madinah. At this juncture, Saudi patience ran out. The Kingdom waged a counter-campaign spelling out the misdeeds of the Iranian regime and lebelling it as un-Islamic".
قارئین کرام ، درج بالا تناظر میںسانحۂ منیٰ کے حوالے سے دو اسلامی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا تدارک کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے جسکا اسلامی کانفرنس کی جانب سے موثر تدارک کیا جانا چاہیے کیونکہ ماضی میں ایسی ہی بے حکمت پالیسی کے سبب ایران سعودی فقہی اختلافات پاکستان اور خطے کے دیگر اسلامی ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا نشانہ بنے تھے ۔ دیگر اسلامی ممالک کو ایرانی رہنمائوں پر زور دینا چاہیے کہ سانحۂ منیٰ کی بنیاد پر ایرانی حاجیوں کی شہادت کے معاملے کو بین الاقوامی اداروں میں اُٹھانے سے گریز کرتے ہوئے سعودی اداروں کی جانب سے کی جانیوالی تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے نتائج کا نتظار کرنا چاہیے اور باہمی مشاورت سے سانحۂ منیٰ کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے ، کیونکہ یمن کی خانہ جنگی میں ایران کی جانب سے حوثی قبائل کو حساس اسلحہ فراہم کئے جانے کے باعث سعودی ایران تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں اور نئی کشیدگی خطے میں فرقہ واریت کو آگے کی سمت دھکیل سکتی ہے ۔
سانحۂ منیٰ 2015 اور سعودی ایران تعلقات
Oct 01, 2015