جاگیردارانہ سوچ اور تسلط سے اٹے ایک علاقے میں کسی فرض شناس افسر کے تبادلے پرخصوصی عوامی ردِ عمل ظاہر ہوا- بینر اور دیواروں کیساتھ ساتھ کسی مسجد کے غسل خانے میں کسی شہری نے اُس افسر کا نام لکھ کر درخواست کی کہ وہ واپس آجائے- ظلم اور بُرائی سے اٹے کئی علاقوں میں کمزور اور بے بس عوام اکثر مٹھی بھر لیکن بااثر گروہ کیخلاف کسی خدا ترس اور مضبوط حکمران یا افسر کی آمد کیلئے خفیہ اور اعلانیہ جھولی اُٹھائے آسمان کیطرف نظریں اُٹھائے دعا کر رہی ہوتی ہے جو انہیں جابرو ں اور ان سے گٹھ جوڑ کیے افسروں کی چشم پوشی، ظلم و بربریت سے نجات دِلوائے- ضلعی انتظامیہ ، محکمہ مال اور پولیس کے محکمے اس گٹھ جوڑکی بھیانک مثال ہیں-
چند فرض شناس اور خدا ترس افسران کو مضبوط طبقات کیساتھ ٹکراو کرتے ہوئے دیکھ کر دِلی مسرت کیساتھ حسرت بھی ہوتی ہے، خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں اور دعا بھی نکلتی ہے - خواتین ہوتے ہوئے آجکل عائشہ ممتازجیسی کئی خواتین کی اب تک فرض شناسی بہرحال قابل ستائش ہے- عوام کو حفظانِ صحت کی کسوٹی پر خوراک کی فراہمی اُتنی ہی اہم ہے جتنی اُنکے جان و مال کی حفاظت - ماضی میں وقفے وقفے سے کئی آشفتہ سر یا سرپھرے افسران منظر عام پر آتے رہے ہیں جنہوں نے خلق خدا کے تحفظ اور خوشحالی کیلئے کئی کالی چٹانوں سے ٹکرلی- منقسم رائے ایک طرف لیکن چوہدری اسلم، احمد رضا طاہر، ذوالفقار چیمہ ، محمد علی نیکوکار، اطہر وحید ، شفقت باری، اکرم چیمہ اور سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے کئی ایسے افسران ہیں جو بہرحال اپنی فرض شناسی کے جوہر دکھاچکے ہیں- خاکسار بھی کسی پارسائی کا دعویدار تو نہیں لیکن خدمتِ خلقِ خدا میں ایسی ہی انتہائی ادنیٰ کاوش کو قدرت کا انعام ضرور سمجھتا ہے-
درحقیقت کسی بھی طاقتور ترین قوت سے عوام اور فرض شناسی کی خاطر ٹکرانے کیلئے تیار ایسے افسران اپنی فطری ساخت ، سوچ اور رجحان کی بدولت قدرت کیطرف سے منتخب شدہ اور تفویض کردہ دِکھائی دیتے ہیں - جب بھی کسی علاقے میں تسلط اور جبر حد سے تجاوز کر جاتا ہے توشاید قدرت مظلوم عوام کی مدد کیلئے اپنا کوئی نہ کوئی نمائندہ ، ولی، قطب، صوفی، ادیب، اصلاح کار، سماجی کارکن، حکمران یا افسر کیصورت میں وہاں ضرور روانہ کرتی ہے- جو ظالم کا ہاتھ کاٹتا ہے اور مظلوم اور کمزور کی لاٹھی بنتا ہے یہاں تک کہ خلق خدا آزادی حاصل کرنے پر سُکھ کا سانس لیتی ہے اور برملا کہتی ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اسکے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں!
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو حیرتا معلوم ہوتا ہے کہ اولاایسے نمائندگان اور افسران کا دورانیہ نہایت قلیل ہوتا ہے - ابھی وہ اپنے مشن کی تکمیل کے مراحل میں ہی ہوتے ہیں کہ یا تو انہیں واپس بلالیا جاتا ہے اور یا صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے - یا دوئم قدرت انہیں باوجوع ذاتی و خاندانی حکمت ایک طرف اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیتی ہے- تاہم خلق ِ خدا اُنکے قلیل ترین ادوار کو ایک عرصہ تک ضرور یاد رکھتی ہے بلکہ ایسے مسیحائوں کی منتظر رہتی ہے کہ کوئی کانٹوں سے اٹی وادی میں ضرور آئے اوراپنے پائوں میں پڑے چھالوں کی پیپ سے ایک عرصہ سے خشک زبان خلق کی پیاس بجھائے-
پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افسران کا دورانیہ اتنا قلیل کیوں ہوتا ہے - عمر بن عبدالعزیز ، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، شاہ ولی اللہ ، سرسید احمد خاں، قائد اعظم ، برطانوی و امریکی مارٹن لوتھر، نیلسن منڈیلا ، ابراہم لنکن کی عملا قلیل عرصہ کیلئے روح انسانی کو آزاد کرانے پر مامور رہے- گوکہ انہیں یا تو برطرف کردیا گیا یا پابند سلاسل یاوہ مایوس ہوکر پیچھے ہٹ گئے تاہم انہوں نے نہ صرف ایک مرتبہ برائی کو واضع کردیا بلکہ اسے جڑوں سے ہلانے یا اُکھاڑنے میں ضرو ر کامیاب ہوگئے- دوسرا تلخ سوال یہ ہے کہ خدمتِ خلقِ خدا پر مامور افسران کو اکثریتی عوام تو پسند کرتے ہیں لیکن چند مٹھی بھر افراد پر مشتمل بااثر طبقہ اُنہیں کسی نہ کسی طرح فارغ کروانے یا بالآخر بُرا ثابت کروانے میں کیونکر کامیاب ہوجاتا ہے - سابقہ ادوار میں اچھا کام کرنے والے افسران کو اچھی تعیناتی دیکر جان چھڑا لی جاتی تھی لیکن موجودہ دور میں انہیں انکوائری سے کہیں آگے سبکدوشی، گرفتاری یا زندگی سے ہاتھ دھونے کی صورت میں فارغ کیا جاتا ہے - مددگار عوام اور نیک دوست اخلاقی طور پر مضبوط لیکن معاشی اور سماجی طور پر نہایت کمزور ان کی کوئی بھی مدد کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور چند دن کی آواز اٹھانے ، بینر لگانے ، دیواروں ، بسوں، ریل گاڑیوں اور غسل خانوں سے خفیہ مقامات پر غم و غصہ کا اظہار کرتے اپنے مسائل کے حل کی تلاش میں کھو جاتے ہیں اور متاثرہ افسران ایمانداری کی بدولت انکوائری اور مقدمات جو حل کیلئے کورٹ کچہری کے پتوں کی طرح پیسہ مانگتے ہیں بالآخر مقابلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھتے ہیں- مافیے بھاری ہو جاتے ہیں جبکہ متاثرہ افسران اور ان کے اہل خانہ کڑیل حالات سے گزرتے ہوئے محض چند نیک افراد کی ہمدردیوں کا مستحق قرار پاتے ہیں-ـ
لاہور میں زندہ دِلانِ لاہور کی کھانوں سے رغبت ایک حقیقت ہے - سخت اقدامات سے کھانے پینے کی اشیاء یعنی چنے، حلیم، دودھ اور شربت وغیرہ بیچنے والا ریڑھی بان جو حفظان صحت کے اصولوں پر عدم صلاحیت کی وجہ سے کاربند نہ رہنے پر مجبور ہے اُس وقت تک متاثر نہ ہو جب تک انہیں چھوٹی بڑی ٹیکنالوجی مہیا نہ کر دی جائے- کیونکہ وہ سستے داموں غریب مزدور وکسان کیلئے خوراک اور وقتی تسکین کا واحد ذریعہ ہے-
ایک بات تو طے ہے کہ ضمیر کے ایسے اِکا دُکا پناہ گزین افسران تمام خطرات سے بے خطر شر کیخلاف آتشِ نمرود میں کود پڑنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں چاہے ان کا وقت کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو عوام اور قدرت کی نظر میں امر ہو جاتے ہیں - کائنات میں خیر کے حق میں میزان اور توازن قائم رکھنے کا سبب بنتے ہیں اور اپنے اپنے حصے کا دیا ضرور جلاتے رہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی کانٹوں سے اٹی وادی میں پائوں میں چھالے لیے عرصہ سے منتظر خلق خدا کی پکار پر چھالوں کی پیپ کے پانی سے پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں- اور بقول غالب ! بلکتے عوام کی مدد کیلئے پہنچتے رہتے ہیں-
کانٹوں کی زباں پیاس سے سوکھ گئی ہے یا رب
کوئی آبلہ پا وادی پرخار میں آوے